کوچہ نمک حراماں سے جڑی ایٹمی دشمنی
آج یوم تکبیر ہے کہانی کو ایک دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں۔ کسی بہت بے خبر کا بتانا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی اپنے جنگ بازوں سے تنگ تھے۔ ان جنگ بازوں کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ انہی کے کہنے پر ایٹمی دھماکے کر دئیے۔ یہ ان کی بہت سوچی سمجھی حرکت تھی۔ وہ ایک امن پسند روح رکھنے والے سٹیٹس مین ہیں۔
بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو بھارتی مہاشوں نے اچھل اچھل کر دھرتی ہلانا شروع کر دی۔ پاکستان کو دے مار تڑیاں دیں کہ اب کشمیر اپنے زور بازو سے لے لیں گے۔ پاکستان میں کافی بڑے حلقے کی سوچ یہ بھی تھی کہ ایٹمی قوت تو ہم ہیں۔ دنیا کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہے۔ ہمارے دشمنوں کو ویسے ہی پتہ ہے۔ تو ایسے میں بہتر ہے کہ معاشی مفادات حاصل کئے جائیں۔ یہ سوچ اس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت کی بھی تھی۔
پاکستان میں سوچ بچار کا عمل جاری تھا۔ یہ خدشہ دیکھتے ہوئے کہ کہیں پاکستانی امریکی صدر کے دئیے ہوئے لالچ میں ہی نہ آ جائیں۔ ایٹمی دھماکہ کرنے کی بجائے کوئی بڑا معاشی پیکج ہی نہ لے لیں۔ واجپائی کے اصرار پر ہی ان کے اہم وزرا نے پاکستان کو سیدھی دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ پاکستان کے پاس کوئی دوسرا آپشن تھا بھی تو وہ ختم ہو گیا۔
نوازشریف کے ساتھ ڈیوٹی دینے والے ایک افسر ایک لطیفہ نما کہانی بھی سناتے ہیں۔ انہی دنوں جب سوچ بچار کا عمل جاری تھا۔ ایک رات نوازشریف اس افسر جو ان کا اے ڈی سی تھا کو ساتھ لے کر نکلے۔ اکیلے ڈرائیو کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔ آدھی رات کا وقت تھا اندرون شہر جا کر دہی بھلے خریدے۔ پھر مینار پاکستان آ کر گاڑی پارک کی بہت دیر اسے دیکھتے رہے۔ پھر خودکلامی کرتے ہوئے کہا کہ اے دھماکے میں کرنے ای کرنے۔
لاہوری دوستوں سے کہنا ہے کہ بندے کو اس درجے کا جذباتی کر دینے والے ان ایٹمی دہی بھلوں کا اتہ پتہ کریں۔
واجپائی بس پر بیٹھ کر پاکستان آئے۔ مینار پاکستان پر گئے وہاں پر اپنے تاثرات لکھے۔ مینار پاکستان جانے کی بہت بڑی علامتی اہمیت تھی۔ قیام پاکستان کی بنیاد بننے والے اجلاس کی یادگار پر جانا یہ بتانے کے لئے تھا۔ ہم نے مان لیا اس علیحدگی کو اب ہم آپ کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ بات چل نکلی تھی مسائیل حل ہو جاتے۔ پھر کارگل ہو گیا۔
کوچہ نمک حراماں کے کمانڈو نے وہی کیا جو کبھی اس کے بڑوں نے کیا تھا۔ ہم لوگ پرویز مشرف کو اتنا ہی جانتے ہیں کہ اس کا خاندان دہلی کی نہر والی حویلی سے آیا تھا۔ یہ ادھورا سچ ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ نہر والی حویلی میں بسنے والے لوگ سارے ہی پانی پت سے آئے تھے۔ وہ جس محلے سے آئے تھے اسے کوچہ نمک حراماں کہا جاتا تھا۔
اس کا قصہ یہ ہے کہ جب ستاون کا غدر مچا تو پانی پت سے اسی محلے کے لوگوں نے انگریزوں کی حمایت کی۔ اس محلے کا نام نمک حراماں پڑ گیا۔ ان لوگوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ لوگ اتنا تنگ ہوئے کہ انہوں نے انگریزوں سے کہہ کر دہلی میں نہر والی حویلی الاٹ کرائی اور وہاں منتقل ہو گئے۔ یہ حویلی ویسے بھی خالی تھی کہ اس کا مکین انگریزوں کے خلاف لڑتے مارا گیا تھا۔
امن کی شدید خواہش فطری ہے۔ ہمارا ماضی بار بار لوٹ کر آتا ہے اور امن کے امکانات برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔
Published on: May 28, 2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).