کتے کا گوشت


شدید گرمی کا موسم اور گرم ہوا چل رہی تھی۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں کی طرف گامزن تھے۔ سڑکوں پر چلتے رکشے اور گاڑیاں اپنے دھواں سے فضا کو آلودہ کر رہے تھے۔ ان سب کو کوئی پوچھنے والا نہیں اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے رشوت خور اپنے اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھرنے میں مگن تھے۔ اسی دوران رمضان قصائی بکرا ذبح کر کے اپنی دکانداری وضع کر رہا تھا۔ کبھی وہ گوشت پر کپڑا گیلا کر کے گرمی سے محفوظ کرنے کا ارادہ کرتا تو کبھی گاہک کے انتظار میں دائیں بائیں دیکھتا۔ کچھ لوگ سڑک کنارے آتے جاتے سلام و دعا بھی کرتے جو واقف دوست تھے۔ ابھی چند لمحات ہی گزرے تھے تو پولیس کا چھاپہ پڑا اور رمضان قصائی کو گرفتار کر کے لے جانے لگے۔ اس نے اصرار کیا کہ:

” جناب مجھے بتائیں کہ وجہ کیا ہے؟“
پولیس والوں نے رمضان قصائی کو بتایا کہ:
” تم کتے کا گوشت لوگوں کو کھلاتے ہو۔“
تمہیں ہمارے ساتھ عدالت جانا ہو گا کیوں کہ تمہارے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے۔ وہ بتاتا رہا کہ:
” میں نے لوگوں کو کتے کا گوشت نہیں فروخت کیا اور نہ میں نے ایسا کرنے کا سوچا ہے۔“

یہ سب کچھ کہنے کے باوجود بے سود ثابت ہوا اور پولیس اس کو گاڑی میں بٹھا کر عدالت کے احاطہ میں لے گی۔ وہاں پر کئی لوگ رمضان کی طرح ہتھکڑیوں میں جکڑے پولیس والوں کے ہاتھ میں تھے۔ نہ جانے کن کن جرائم میں ملوث پائے گئے تھے ادھر رمضان بھی پریشان اور پسینے میں شرابور ادھر ادھر نظریں دوڑ رہا تھا۔

تقریباً دو گھنٹے بعد عدالت کی طرف سے ایک اہلکار آیا اور پولیس والوں کو بتایا کہ:
” جج صاحب بلا رہے ہیں اس کو جو لوگوں کو کتے کا گوشت فروخت کرتا ہے“

ادھر رمضان کا ایک رنگ آتا اور دوسرا جا رہا تھا۔ جیسے ہی پولیس اہلکار ہتھکڑیوں میں باندھے رمضان کو عدالت میں لے کر گئے تو سبھی لوگ اس کی طرف حیرانی سے دیکھ رہے ہیں۔ جاتے ہی رمضان کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ایک طرف ریڈر فائلوں کو ترتیب دینے میں مصروف اور دوسری جانب ایک نوجوان لڑکا اسٹینو گرافر کمپیوٹر پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔ چند منٹوں کے بعد جج صاحب اپنے چیمبر سے نکلتے ہوئے کرسی پر آ بیٹھے اور آتے ہی رمضان قصائی کو غصے سے دیکھنے لگے اور کہا :

” تم ہو رمضان قصائی ؟“
اس نے جواب میں کہا :
”جی حضور میں ہی ہوں۔“
” تم لوگوں کو کتے کا گوشت فروخت کرتے ہو شرم نہیں آتی۔“
جج صاحب نے زوردار لہجہ میں پوچھا:
رمضان نے اپنا تیور بدلا اور حوصلہ کرتے ہوئے بولا:

” جناب میں لوگوں کو کتے کا گوشت نہیں کھلاتا آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے، اور نا کبھی ایسا کرنے کا سوچا ہے۔ میں تو اپنے بچوں کی روز کی روٹی کمانے کا سوچتا ہوں۔“

جج صاحب نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

” تم پر یہ بات ثابت ہوئی ہے اور ہمارے پاس تمہارے خلاف درخواست بھی دائر ہوئی ہے تم جانتے ہو کہ میرے پاس اختیار ہے تمہیں سزا دوں یا چھوڑ دوں۔“

رمضان نے عاجزانہ لہجہ میں جواب دیا:

حضور میں جانتا ہوں کہ اللہ نے یہ اختیار آپ کو دیا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ اس کی امانت ہے۔ امانت میں خیانت کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ ”

جج صاحب نے ایک دم توجہ کا مرکز اس کے چہرے پر کرتے ہوئے کہا:
” تم پھر سچ سچ بتاؤ جو تم نے کیا ہے ورنہ۔“
جناب معاملہ کچھ یوں ہے کہ :

”یہ سرکاری اہلکار کبھی ریٹ لسٹ چیک کرنے آتے ہیں تو کبھی آتے جاتے گزرتے ہوئے میری دکان پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور گوشت لینے پر استفسار کرتے ہیں۔“

جج نے حیرانی سے پوچھا:
” تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ “
رمضان بولا:

” جناب آپ ہی بتا دیں میں جانوروں کی منڈی سے جانور خرید کر لاتا ہوں پھر ذبح کرتا ہوں، اس کو دکان پر فروخت کرنے کے لئے سارا سارا دن بھی صرف کرتا ہوں۔ جو بچوں کے لیے کماتا ہوں یہ لوگ لے جاتے ہیں۔ “

جج صاحب نے بات کو دہراتے ہوئے رمضان سے پوچھا:
” کیا مطلب ہے تمہارا؟“

”جناب مطلب واضح ہے جب بھی یہ لوگ میری دکان پر آتے ہیں دو کلو، تین کلو گوشت لے جاتے ہیں۔ جب پیسے مانگتا ہوں تو وہ دینے سے انکار کرتے ہیں دوسری جانب سے دھمکیاں دیتے ہیں اگر پیسے مانگے تو جیل میں بند کر دیں گے دکان سیل کر دیں گے وغیرہ۔“

جج حیرانی سے ماتھے پر بل بنا کے یہ بات سن رہا تھا۔ عدالت میں موجود دیگر لوگ بھی اس بات پر متوجہ تھے۔ رمضان نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

” جناب ایک دفعہ ہوا، دو دفعہ ہوا، بلکہ ان لوگوں نے تو معمول بنا لیا تھا اگر پیسے مانگتا تو دھمکیاں دینے لگتے۔ پھر میں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ کتوں کو کتوں کا گوشت کھلایا جائے نہ کہ دیگر لوگوں کو۔“

جج فوراً بولا:
”کیا بات تم کہنا چاہتے ہو۔ ؟“

” حضور بات واضح ہے میں اب بھی کہتا ہوں میں لوگوں کو کتے کا گوشت نہیں کھلاتا۔ اگر میں معمول میں ان لوگوں کو گوشت دیتا رہوں تو میرا گھرانا کنگال ہو جائے گا۔ بچے بھوک سے مرنے لگیں گے۔ “

یہ بات جاری تھی کہ عدالت کا ماحول خاصا خاموشی میں بدل چکا تھا سبھی لوگ بات کو تجسس اور حیرانی سے سن رہے تھے۔ اگلے ہی لمحہ رمضان بولا:

”میں نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے پھر اس دن سے جب بھی یہ میری دکان پر آتے ہیں تو صرف ان کو ہی کتے کا گوشت دیتا ہوں نہ کہ دیگر لوگوں کو جو میرے مستقل گاہک پیسوں سے خریدتے ہیں۔“

جب جج نے بات سنی تو کرسی کے ساتھ لگ گیا اور آنکھیں بند کر کے چند لمحوں کے لئے سوچنے لگا۔ عدالت کھچا کھچ لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور جج کی طرف دیکھنے میں مگن کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جج نے آنکھیں کھولیں اور فیصلہ سناتے ہوئے بولا:

” کتوں پر کتے کا گوشت حلال ہے۔“
اور اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments