کیا ہوتا اگر حسن، حسین بھی پاکستان آجاتے


امیر ابو منصور سبکتگین غزنی کے گورنر الپتگین کا داماد تھا۔ وہ انتہائی سادگی، عاخزی اور غربت میں میں زندگی گزارتا تھا۔ وہ اکثر شکار کی غرض سے جنگل کا رخ کرتا تھا، کوئی آسان شکار ہاتھ آجاتا تو شکار کرکے گزر بسر کرتا۔

ایک دن جب وہ شکار کے لئے جنگل کی طرف جارہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک ہرنی اپنے بچے کے ساتھ جنگل میں چر رہی ہے۔ سبکتگین نے اپنا گھوڑا دوڑایا تو ہرنی اور بچہ بھاگنے لگے لکین بچہ پیچھے رہ گیا اور سبکتگین نے ہرنی کے بچے کو پکڑلیا۔ ہرنی نے جب بچے کو ساتھ نہیں پایا تو وہی رک گئی، اور مڑ کے دیکھنے لگی۔ اس نے دیکھا کہ شکاری بچے کے پاوں باندھ کر اس سے اٹھا کر گھوڑے پہ ڈالا اور وہاں سے روانہ ہوا۔ ہرنی کے سینے میں ایک ماں کا دل تھا وہ پریشان ہوگئی اس کے دل میں درد اٹھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ خود شکار ہوجائے مگر بچے کو شکاری سے آزاد کروانا ہے۔

جب سبکتگین وہاں سے گھوڑا دوڑا کے نکلا تو ہرن برداشت نہ کرسکی۔ اس کی اپنے بچے سے بے پناہ محبت نے اسے سبکتگین کے گھوڑے کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنی زبان میں فریاد کرتی روتی سبکتگین کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگی۔ ہرنی کو یہ یقین تھا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ لیکن وہ اس بات کی پرواہ کیے بغیر اپنے بچے کے لئے سبکتگین کے گھوڑے کا پیچھا کیا۔
سبکتگین نے دیکھا کہ ہرنی تو اس کے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے۔ اس نے ایک ماں کی محبت اور اس کی تڑپ کو محسوس کیا۔ اللہ نے بھی سبکتگین کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اور اس نے ہرنی کے بچے کے پاوں کھول دیے۔

اپنے بچے کو شکاری کی گرفت سے آزاد پا کر ہرنی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ اپنے بچے کو پیار کرنے لگی۔ اور اسی سمے ہرنی نے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھا اور بچے کو ساتھ لے کر چلی گئی۔

سبکتگین کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا لیکن خداوند کریم نے اسے بادشاہی کی عزت بخشی۔ ماں کی دعا اور محبت کے اثرات سے سبکتگین ایک ادنی انسان سے تاریخ ساز شخصیت بن گیا۔ اور سبکتگین کو محمود غزنوی جیسے اولاد سے نوازا جو مشہور باد شاہ اور فاتح ہندوستان سے مشہور ہوئے۔

ماں جانوروں کی ہو یا انسانوں کی محبت کےجذبے سے سرشار ہوتی ہے۔ جب ایک جانور اپنے بچے سے اتنی محبت کرتی ہے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایک ماں اپنے اولاد سے کتنی محبت کرتی ہے۔ بچے کی خوشی کے لئے وہ اپنا سکون ترخ کردیتی ہے۔

بچے کی حفاظت کے لئے اپنی جان پر کھیلتی ہے۔ لیکن افسوس کہ بچے بھول جاتے ہیں۔ کہ ماں نے کس مشکل سے نو ماہ بچے کو اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم دیاتھا۔ پیدائش کے بعد جس تکلیف میں وہ دن رات پرورش کرتی تھی۔ جب بچے کو تھوڑا بخار ہو جائے تو ڈر کے مارے ماں کی جان ہی نکل جاتی تھی۔ جب تک بچہ نہیں سوجاتا ماں کی آنکھ نہیں لگتی تھی۔ ماں سالوں سال صبح سویرے جاگتی تھی تاکہ بچوں کو وقت پر تیار کر کے سکول بھیجا جا سکے۔ جب بچے نوکری کی غرض سے گھر سے نکل جاتے ہیں تو ماں اپنی آنکھوں میں آنسو لئے بے بسی کی تصویر بن کر دوازے پر کھڑی رہتی ہے اس دعا کے ساتھ کہ میرے لال اللہ آپ کی حفاظت کریں۔ اس دن سے ہی بچے کی واپسی کی راہ تکتی ہے۔

جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ویسے ہی پیدا ہوئے تھے۔ ماں بہت عظیم ہے۔ ماں کی بچوں سے محبت اور قربانیوں کی داستانیں بہت ہیں۔ لیکن بچوں کی اپنے ماں کے ساتھ محبت کی داستانیں بہت کم ملتی ہیں۔ ہاں یہ ضرور دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ بچے اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں ڈال دیتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کے دور دیس میں بس جاتے ہیں۔ اور جب ماں باپ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو وہ ان کی آخری آرام گاہ تک کا سفر کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ آج ایک ماں جس نے کبھی اپنے بیٹوں کو جنم دیا تھا، بہترین پرورش کی تھی، اپنی نیندیں حرام کی تھی، نہ جانے کتنی مشکلیں مصیبتیں سہہ لی تھی، ان کی کامیابی کے لئے کتنی دعائیں مانگی تھی۔ اس کی آخری رسومات میں بھی اپنے ساتھ نہیں پایا۔

کیا ہوتا اگر حسن نواز اور حسین نواز پاکستان آجاتے۔ کیا ہوتا اگر انہیں گرفتار کیا جاتا۔ کیا ہوتا اگر انہیں تھوڑی مشکلیں اٹھانی پڑتی۔ کیا فرق پڑتا ان کے کاروبار میں نقصان اٹھانا پڑتا، بے شک ان کو ماں کی تدفین کے بعد جیل بھیج دیا جاتا۔ مگر شاید ان کے دل میں وہ محبت باقی ہی نہیں بچی تھی جس سے ان کو یہ حوصلہ ملتا کہ موت بھی آنی ہے آجائے وہ اپنی ماں کے آخری آرام گاہ تک ان کے ساتھ رہیں گے۔

ماں باب اپنے بچوں کو جوان ہوتے ہوئے دیکھ کر اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ وہ عمر کے آخری حصے میں ان کا سہارا بن جائیں گے۔ جب ان کی موت واقع ہو تو ان کو کاندھا دے کر آخری آرام گاہ تک لے جائیں۔ لیکن کیا پتہ تھا اس عظیم ماں کو کہ جب ان کی موت آئے گی تو ان کا زندگی کا ہمسفر ان کے پاس نہیں ہوگا۔ کیا پتہ تھا اس عظیم ہستی کو کہ جن بیٹوں کو اس نے اپنا فخر سمجھا وہ اس کو پرائے دیس میں ہی رخصت کریں گے۔ کیا پتہ تھا کہ اس کے بیٹے اس کو کاندھا بھی نہیں دے پائیں گے۔ آج کے ان بیٹوں نے اپنی ماں کی روح کو تو بے چین کر ہی دیا ساتھ ہی ہزاروں لاکھوں ماؤں کو بھی مایوس کردیا۔

خداوند کریم سے دعا ہے کہ بچوں کو بھی اپنے ماں کے ساتھ ماں کے پیار کے برابر نہ سہی اس پیار کا آدھا پیار محبت کرنے کی توفیق عطا کریں۔ اور جن جن کے مائیں حیات ہیں خداوندکریم ان عظیم ماؤں کو صحت تندروستی اور لمبی زندگی عطا کریں اور ہم سب کو اپنے ماؤں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا کریں امین۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).