گولی، گالی اور ریاست کا دوسرا مدینہ ماڈل


یہ قصہ دومست حال فقیروں سے وابستہ ہے۔ آج سے تقریباً چالیس برس قبل ایک فقیر صفت مردِ حق سپہ سالار سلطنت الباکستان کے کانٹوں بھرے تخت پر تن تنہا جلوا افروز ہوا۔ سلطنت سماجی، معاشی، اخلاقی اورمذہبی زوال کا شکار تھی اور فتنہ دجال سرخ جھنڈی لہرا رہا تھا۔ سلطنت انتشار کا شکار تھی۔ لہذا، یہ ضروری ہو گیا کہ ایک فلاحی ریاست کا مدینہ ماڈل متعارف کروایا جائے۔

افہام و تفہیم کے بعد سلطانِ معظم کو امیرالمومنین کے لقب سے نواز دیا گیا اور فتوی صادر کرنے کا شرعی حق تقویض کر دیا گیا۔ جب سب اصول و ضوابط وضع ہو چکے تو انتہائی سادگی سے باطن کی صفائی کا پاکیزہ عمل شروع ہوا۔ ”صفائی نصف ایمان ہے“ اس حتمی اصول کو مدِنظر رکھتےہوئے، شوروغل کو روح کی گندگی کا موجب سمجھا گیا اور کوٹھے سے کوٹھی تک ہر قسم کا شوروغل میوٹ موڈ میں کر دیا گیا۔ بک بک کرنے والے تمام دانشوروں اور صحافیوں کا روحانی علاج شروع ہوا۔ یہ طبقہ ”راجہ گدھ“ کے آفاقی کرداروں کی طرح شعوری پاگل پن کا شکار تھا۔

اس پاکستانی ریاست مدینہ میں چونکہ گالی کو معیوب و معتوب سمجھا جاتا تھا اس لئے ان کا علاج بذریعہ گولی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں سے کچھ پاگل فلاحی ریاست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے مگر زیادہ تر پکڑے گئے اوران کو دماغی صحتِ بالغان کے فلاحی اداروں میں داخل کروا دیا گیا۔ جہان امریکی گولیوں اور روحانی جھٹکوں سے ان کا علاج کیا جانے لگا۔ صفائی مہم کو پایاِ تکمیل تک پہنچانے کے بعد فلاحی ریاست نے عالمی اُفق پر جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیے ان کی تشہیر کی یہاں چندں ضرورت نہیں ہم سب بخوبی آگاہ ہیں اور آج تک اس تاریخی دور کے کارناموں کا ذکر کرتے اور آہ بھرتے رہے ہیں۔ پھر 17 اگست 1988 کا وہ ستم گر سورج طلوع ہوا کہ فلاحی ریاست کا شیرازہ قیامت خیز بگولے کی نظر ہو گیا اور ایک بار پھر فلاحی ریاست انتشاری سلطنت میں تبدیل ہو گئی۔

ہم دعائیں مانگتے رہے چڑھاوے چڑھاتے رہے۔ اس عظیم دور کی روحانی پاکیزہ نرسریوں کو اپنے آنسووں سے سیراب کرتے رہے۔ پھر 30 برس کی مسلسل چلہ کشی کے بعد ہماری دعائیں رنگ لے آئیں اور سلطنت ایک بار پھر فلاحی ریاست کا روپ دھارے ہمارےسامنےہے۔ سرخ جھنڈے والی دجالی سلطنت کو ہماری سابقہ فلاحی ریاست تباہ و برباد کر چکی تھی اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہمارے پڑوس میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ ہماری اسی طاقت سے خائف موجودہ طاقتیں فلاحی ریاست سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ہر طرف سے سلامت سلامت کے پیغام موصول ہو رہے ہیں۔

گزشتہ تیس برسوں میں جہاں روحانی نسلیں ہماری روح کو پاکیزہ کرنے میں مصروف رہیں، وہیں ان پاگلوں سے بھی ایک نسل پروان چڑھ چکی ہے۔ جو پچھلے دس برسوں سے برسرِ پیکار ہے اور سلطنت کے طول و عرض میں غل غپاڑہ کر رہی ہے۔ ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں فلاحی ریاست کو باگ ڈور سنبھالے، یہ پاگل پھر سے بک بک کرنا شروع ہوگئے اور ہمارے سند یافتہ صادق و امین والیِ ریاست کے خلاف صف آراء ہیں۔

کبھی ان کے عربیُ النسل گھوڑے پہ آوازیں کستے ہیں تو کبھی دور جدید کے مشینی ”براق“ کی سواری کو فضول خرچی جیسے کج رو لفظ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان پاگلوں کو علم تک نہیں کہ مسندِ حکومت پہ بیٹھتے ہی ہم نے دورِ حاضر کے سرمایہ دار دجال کو کیسی کھری کھری سنائی کہ وہ تین گھنٹے بعد ہی دُم دبا کے ریاست سے بھاگ کھڑا ہو اور جا کافرستان میں پناہ لی۔ ان کو کیا پتہ بائیس سالہ ریاضت سے ایک تیسری قسم بھی ڈھونڈ نکالی ہے جو علم یافتہ بھی ہے اور لبرل بھی وہ گولی کی بجائے گالی سے وہی کام لینے کے فن سے بخوبی اگاہ ہے، مطلب نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

موجودہ فلاحی ریاست نے دوسرا طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور پاگل گدھوں کا علاج گالی سے کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ آزادیِ اظہار کا جھنڈا بھی مزید سر بلند ہوا ہے۔ اس نئی اصلاحی اصطلاح کو ”صافی گالی“ کا نام دیا گیا ہے۔ صافی گالی کے انگنت فوائد چند دن میں ہی سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اگر اوصاف مرتب کرنا چاہوں تو ایک مکمل ”صافی گالی“ لغت شائع کی جا سکتی ہے۔ مضمون کی طوالت کے ڈر سے چند ایک کے ذکر پہ ہی اکتفاء کیا ہے۔ اول، صافی گالی روحانی گندگی دور کرتی ہے اور صرف ایک ہی خوراک سے مریض اپنی روح میں شعوری ارتعاش محسوس کرتا ہے۔ اگر مریض اور مرض کے سابقہ ریکارڈ کو مدِنظر رکھتے ہوئے خوراک کی مقدار بڑھا دی جائے تو مریض سونے سے پہلے چار عدد گولیاں از خود کھا لیتا ہے اور ریاست دماغی صحت بالغان کے فلاحی ادارے پہ اٹھنے والے صافی بوجھ سے بھی آزاد ہو جاتی ہے۔

ریاست اس صافی بچت سے بزداری طیارہ خرید سکتی ہے یا بزداری قبیلے کو بجلی فراہم کر سکتی ہے۔ سوئم ریاست گولیاں کی درآمد بند کرتے ہوئے خطیر زرمبادلہ بچا سکتی ہے۔ کچھ ہی دن میں ایک ”عرب“ ڈالر سے زائد کی بچت کی جا چکی ہے۔ چہارم، ایک کروڑ جوانوں کو ملازمت دینے کا وعدہ بھی پورا کر دیا گیا ہے اور بائیس سالہ نوجوان ساٹھ سے ستر سال کے پاگل بڈھے گدھوں کو گالیاں کھلانے کی ذمہ داری احسن انداز میں نبھا رہے ہیں۔

اس برق رفتار بچت اور ترقی کو مدِنظر رکھتے ہوئے والیِ ریاست کے ترجمان نے اعلان بھی کر دیا ہے کہ ہم ریاست کے ہر جوان کو ایک مشینی براق دیں گے جس کے اخراجات صرف پچاس روپے فی ”ہوائی“ کلومیٹر ہوں گے۔ اس اعلان کے ہوتے ہی“ کریم اور اوبر“ جیسی یہودی النسل کمپنیوں کا ریاست میں دیوالیا نکل گیا ہے اور اسرائیل کی معاشی ناکابندی کر دی گئی ہے۔ اس طرح ریاست نے ایک تیر سے دو شکار کر لیے ہیں۔ نوجوانوں کو سستی ہوائی سہولت بھی فراہم کر دی اور دوسری طرف گستاخانہ خاکوں کا بدلہ بھی لے لیا۔ یہ پاگل گدھے ابھی تک نہیں سجمھ پائے کہ ریاست نے ہنی مون پریڈ کی پہلی ماہواری سے قبل ہی کیا کیا کارنامے سرانجام کر دیے۔ اوئے سلیم صافی۔

نوٹ:
اول الذکر دویش کا تعلق صوفیانہ فکر کے سلسلہ ”وحدت الوجود“ سے تھا

موخرالذکر صادق و امیں ولی ریاست کا تعلق سلسلہ ”وحدت الشہود“ سے ہے اور قاضی وقت ان کے بیعت یافتہ ہیں اور ریاست کے اندر پائی جانے والی سلطنت بھی تابع و فرمان ہے۔

زندہ تو زندہ مردے بھی نہ چھوڑے ہم نے
سرِعام میتوں پہ دوڑا دیے گھوڑے ہم نے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).