لاشعور روح کی مسند ہے


انسان کے ذہن میں ایک خودکار نظام نصب ہے جو اسے ہر خطرے اور برے وقت سے آگاہ کرتا ہے۔ عام طور ہر اندر کی آواز اسے مشکل کام سے روکتی ہے، جو اس کے لئے مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔ ذہن ہر خطرے کو بھانپ لیتا ہے۔ مگر انسان کی بے یقینی اس آگہی کو رد کردیتی ہے۔

اندر کی روشنی یا آواز جو اسے صحیح راستہ سجھانے کی کوشش کرتی ہے، جسے intuition (وجدان) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سوچ کا زاویہ ہے، جو زندگی کی سچائی اور حقیقت کے قریب تر ہے۔ مگر انسان حقائق کو جھٹلاکر خودفریبی میں مبتلا رہنا چاہتا ہے۔ اسے زندگی کے پر فریب راستوں پر چلنا زیادہ پرکشش لگتا ہے۔ گمان میں ایک عجیب سحر ہے۔ اس لیے جھوٹ واہموں اور قیاس آرائیوں کی طرف جلدی مائل ہو جاتا ہے۔

گمان مکڑی کے جالے جیسا ہے۔ جو اس کے ذہن و روح کے گرد گمان کی دھند بن لیتا یے۔ باطن کی تیسری آنکھ یہ ایک طلسماتی لفظ ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ کبھی انسان اندر کی آواز سنتا ہے تو کبھی نظر انداز کر دیتا ہے، لیکن جب بھی وہ باطن کی روشنی سے منہ موڑتا ہے، اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ آپ نے اکثر وجدان (intuition) یا وجدانی قوت کا نام سنا ہوگا۔ جسے روحانیت یا روحانی قوت سے جوڑ دیاجاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ روح کیا ہے؟ اس کا قیام جسم کے کس حصے میں ہے اور اس کا طبعی زندگی میں کیا کردار ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہر انسان سوچتا ہے۔ روح جسے آپ نے کبھی نہیں دیکھا۔ جو چیز دکھائی نہ دے تو اس پر کیا یقین کرنا!

بہت آسان سا جواب ہے کہ روح انسان کا ذہن ہے۔ اس کا ڈیرہ لاشعور میں ہے۔ لاشعور روحانیت کی مسند ہے اور اس کا مذہب سے زیادہ رویے، رجحان اور وراثت سے تعلق ہے۔ روحانیت کو ہم سمجھ نہیں سکے ہیں۔ اسے مزار، پیر یا فقیروں سے جوڑ دیتے ہیں۔ یہ ذہن کی تصوراتی طاقت ہے۔ یہ مظبوط قوت ارادی، شفافیت، سچائی اور گہرے یقین سے تعلق رکھتی ہے۔ شفا، تعویذ گنڈوں یا دوائیوں میں نہیں ہے، شفا یقین کے ہنر میں ہے۔
یقین اگر معجزہ ہے تو ایک حادثہ بھی رونما کرسکتا ہے۔

ذہن کی لہروں کو جانئے۔ یہ برین ویوز اہم ہیں جن کے مختلف کام ہیں جیسے ڈیلٹا ویوز پرسکون اور آہستہ ہیں جو گہرے مراقبے( deep meditation) کے وقت پیدا ہوتی ہیں۔ ذہن جب اس کیفیت میں ہوتا ہے تو شفایابی کا عنصر شامل ہوجاتا ہے۔ تھیٹا ویوز کے دوران آپ نیند کی کیفیت کے درمیان میں ہوتے ہیں۔ جو ارتکاز اور تصورات کا امتزاج ہیں۔ الفا ویوز غوروفکر یا پرسکون حالت کی پیداوار ہیں۔ اس وقت ذہن ارتکاز کی حالت میں ہوتا ہے۔

بیٹا ویوز شعوری کیفیت کا نام ہے جب ہم جاگ رہے ہوتے ہیں۔ اس حالت میں الرٹ اور مرتکز، اس وقت مسائل کی آگہی رکھنے کے ساتھ انہیں سلجھانے کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔
گاما ویوز تیز تر اور شعور کی ارفع حالت ہے، جب انسان حسیاتی طور پر متحرک ہوتا ہے۔ ان تمام ذہنی لہروں کو جاننا اور ان کا صحیح استعمال ذہنی وسعت و آگہی کا باعث بنتا یے۔ جسے ذہن کی طاقت کہہ لیجیے یا روحانیت کا نام دیں۔

دماغی بیماریاں ان لہروں کے عدم توازن کا نام ہے۔ مثال آپ ہر وقت چوکنے نہیں رہ سکتے مگر موبائیل یا کمپیوٹر کے استعمال کے وقت آپ الرٹ موڈ پر ہیں۔ یا ذہن ہر وقت سوچ رہا ہو تو اینگزائٹی، بے خوابی، درد، ہراسانی کے حملے، او سی ڈی (بار بار ہاتھ دہونا یا ایک بات مستقل دہرانا) وغیرہ جیسی بیماریاں حملہ ور ہوجاتی ہیں۔

گہماگہمی، حرکت، مشاہدے کی ضرورت کے ساتھ انسان کو یکسوئی، سکون اور فرصت کی ضرورت ہے۔ جب وہ خود سے بات کرسکے، اپنا محاسبہ و تجزیہ ممکن ہو۔ اس کے بعد وہ وجدانی کیفیت، پیشنگوئی، حسیاتی طاقت کا مرتکب ہوسکے گا۔

وجدان کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یورپین مصنفہ اپنی کتاب What is life میں لکھتی ہیں ”جسم میں بیک وقت دو نظام کارفرما ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسرا سماوی ہے جو مادی جسم کے ذرات (Atoms) میں رہتا ہے اور بعد از موت الگ ہو جاتا ہے۔ حقیقی جسم، جسم لطیف ہے جب کہ مادی جسم ایک خول یا سرائے کی مانند ہے جس میں سماوی جسم عارضی طور پر رہائش پذیر ہے۔ ‘‘

چونکہ طبعی دنیا ہماری سمجھ کے قریب تر ہے، لہٰذا سچ اور حقیقت کو منطقی انداز میں پرکھا جاتا ہے۔ یہ دنیا منتشر، مادیت پرست اور خواہشوں کے جال میں لپٹی ہوئی ہے اور انسان غیر محسوس طریقے سے اس جال میں پھنسنے لگتا ہے۔ اس کیفیت میں انسانی حواس خمسہ بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ عقل، سمجھ اور سوجھ بوجھ کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ اور وہ وجدانی کیفیات اور سمجھ سے دور چلا جاتا ہے۔

وجدان کا مطلب دیکھنا اور غور کرنا ہے۔ جب انسان کی حسیں صحیح طور پر کام نہیں کر سکتیں تو اس کا مشاہدہ اور تجربہ بھی سطحی اور بے معنی ہو گا۔ یہ شعور کا عرفان ہے۔ صحیح فیصلے کی قوت اور سمت کا انتخاب کرنا تو مشکل مراحل ہیں۔ غور و فکر، مشاہدے کی مختلف صورتیں ہیں۔ مشاہدے کی اس وقت اہمیت ہوتی ہے جب انسان اسے شعوری طور پر اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

خیال کا بیج برسوں نمو پا کر تناور درخت بنتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ذہن کی زمین کو زرخیز بنانا پڑتا ہے۔
ذہن یا روح کی زرخیزی تک سوچ اورعمل کا ایک طویل فاصلہ ہے۔ جسے عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ کمفرٹ زون سے دور دشوار گذار راستہ ہے۔ لہذا اکثر تھک کے واپس لوٹ آتے ہیں۔ یہ نہ ہی خالی عبادت سے مزین ہے۔ جس میں انسان کی محبت، ہمدردی اور فلاحی رویوں کا ذکر نہ ہو۔

وجدان کے حوالے سے دو رویے اہمیت کے حامل ہیں۔ چیزوں کا ادراک کرنا، انھیں صحیح تناظر میں دیکھنا دوسرا رویہ یہ بتاتا ہے کہ ہم کس طرح تصور قائم کرتے ہیں۔ یعنی مشاہدے سے کس نوعیت کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ لوگ حواس خمسہ کے ذریعے سمجھ اور ادراک کے مرحلے سے نہیں گزرتے، بلکہ وہ ذہن سے محسوس کرتے، سمجھتے اور دیکھتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے عقیدے یا نظریے کی رو سے تصور قائم کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے ایسا کرنے سے انسانی سوچ و سمجھ کا دائرہ بہت محدود ہو جاتا ہے۔

نفسیاتی ماہر اس ضمن میں کہتے ہیں کہ جب ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں یا ان کا ادراک کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ان کے بارے میں واضح سوچ پہلے سے موجود ہونی چاہیے۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ Conception Leads Perception یعنی صحیح تصور و سمجھ سے ہم صحیح تناظر تک جاتے ہیں۔ لہٰذا ادراکی سمجھ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس کے لیے باطن کی تیسری آنکھ کو نکھارنا اور سنوارنا بہت ضروری ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیے مگر فقط اپنے ہی ذہن سے دیکھیے۔ اپنے کانوں سے سنیے مگر اس میں دل کی دھڑکنیں بھی شامل ہوں تو مشاہدے میں مزید گہرائی آئے گی۔

مگر ہم سہل پسند ہیں۔ دوسروں کے تجربے یا مشاہدےطپر انحصار کرتے ہیں تاکہ خود محنت نہ کرنی پڑے۔
ہر انسان میں وجدانی سوچ اور کیفیت موجود ہوتی ہے۔ مگر اسے اس صلاحیت کو سمجھنے اور اسے اجاگر کرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ یہ ہنر سیکھنے کے لیے، شعوری سمجھ کا دائرہ بہت وسیع کرنا پڑتا ہے وسعت، ہمیشہ محدودیت کا دھندلا آئینہ توڑ کے رکھ دیتی ہے۔

شعور کی وسعت، فطری زندگی کے مشاہدے کے بغیر نامکمل ہے۔ جس کے لیے حاضر دماغی اور حال کے لمحوں میں جینے کا سلیقہ اور تحرک چاہیے۔ قدیم قومیں، سب سے پہلے حال میں جینے کا درس دیتی ہیں۔ انسان خیال کی گہرائی، سوچ کی انفرادیت اور ادراکی سمجھ حال کے مشاہدے سے حاصل کرتا ہے۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھئے کتنی چیزیں ہیں، جو آپ کی توجہ سے محروم ہیں اور آپ ان کے مثبت اثر اور افادیت سے محروم ہیں۔ مثال سردیوں کی دھوپ کا لمس جو بند کمروں میں آپ کو میسر نہیں ہے۔ یا سبزے کی توانائی، پھولوں کی مہک یا گداز۔ آپ کے بچوں کی نظریں آپ کا انتظار کرتی ہیں اور آپ کی انگلیاں نوٹ گن رہی ہوں۔

حال میں جینے کے سلیقے سے یکسوئی عطا ہوتی ہے۔ ایک پورا دن اور اس کا مشاہدہ اس وقت ممکن ہے جب ہم شعوری طور پر فعال ہوں۔
سمجھ اور یکسوئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یکسوئی نہیں تو شعور، تصور کی خوبصورتی اور ادراکی سمجھ بھی غیر موجود ہو جاتے ہیں۔ ناسمجھی، عدم برداشت، انتشار اور منفی رویے وجدانی سوچ کے حریف ہیں۔ لہٰذا سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی قوتیں دم توڑ جاتی ہیں۔

آگہی حاصل کرنے کا پہلا زینہ یکسوئی ہے۔ جس سے خودشناسی اور ذاتی تجزیے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہر وقت اپنا فائدہ اور سہولت یا دکھ سوچنے والا ذہن، زندگی کی تازگی، خالص پن اور معنویت سے دور ہو جاتا ہے۔
وجدانی خواب بھی غیر محسوس طریقے سے ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اکثر ان کہے سوالوں کا جواب ان میں پوشیدہ رہتا ہے۔ ماہر نفسیات ژونگ نے فرائڈ کے خواب کے نظریے کو مسترد کر دیا تھا کہ خواب پوشیدہ خواہشوں کا ردعمل ہیں، جن کا حصول عام زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ ژونگ کے نزدیک خواب ہمارے تصور اور تعمیری سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ ژونگ نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں اپنے کئی خواب قارئین کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ جو ژونگ کی زندگی میں سوچ کی تبدیلی لے کر آئے۔

تخلیقی سوچ و صلاحیت بھی وجدانی احساس کا اظہار ہے۔ وجدانی خواب تخلیقی صلاحیت کو دریافت کرتے ہیں۔ یہ دانش و عقل کا امتزاج ہیں۔ فرائڈ، ژونگ، مصور سلواڈور ڈالی، کولرج، ولیم بلیک، ولیم ورڈز ورتھ، جان کیٹس، شاہ لطیف، رومی، ٹیگور، خلیل جبران و دیگر اعلیٰ پائے کے تخلیق کار سماوی شعور سے جڑے ہوئے تھے۔

شعوری سطح کو سمجھے بغیر لاشعور کی لامحدود اور حیران کن دنیا تک رسائی ممکن نہیں ہے اور لاشعور کائنات پر محیط ہے۔ شعور و لاشعور کی ہم آھنگی الھامی کیفیت میں ڈھل جاتی ہے۔
یہ سوچ لافانی اور زمان و مکان کی پابندیوں سے مستثنیٰ ہے۔ جو ان ہواؤں کی طرح ہے جو پہاڑوں اور سمندروں سے راستہ بناتے ہوئے مستقل آگے بڑھتی رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).