چند اچھے برے مجرموں کی کہانیاں


گلی محلے کے چھوٹے موٹے چور ہوں پبلک ٹرانپورٹ کی بسوں میں مسافروں کی جیبوں کا صفایا کرتے جیب تراش ہوں جواری ہوں ٹھگ ہوں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرتے ملاوٹ مافیا ہوں یا بہت بڑے بڑے ڈاکو اغوا کار دہشت گرد کرائے کے قاتل۔ میں ایک پولیس والا ہونے کی حیثیت سے ذاتی تجربے کی بنیاد پہ کہتا ہوں۔ ہر جرم کرنے والے کے پاس اپنے گناہوں کو جائز سمجھنے کے لیے اپنے ضمیر کو مطمین کرنے کے لیے سینکڑوں من گھڑت دلائل اور وضاحتیں ہوتی ہیں۔ اور شاید انھیں جھوٹی سچی کہانیوں کی آڑ میں مجرم جرم کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے پرسکون بھی رہتے ہوں۔

ہر جرم کرنے والا معاشرے کی بے حسی غربت بے روزگاری اور سسٹم کو ذمہ دار ٹھہراتا دکھائی دیتا ہے۔ اور کسی حد تک شاید یہ جاگیردارانہ نظام افسر شاہی بہت سارے جرائم کی جڑ ہے اپنے دست نگر لوگوں کی حق تلفی کرنا ضرورت مندوں کو نظرانداز کرنا بھی بغاوت اور بے راہروی کا سبب بنتا ہے۔

ایک دفعہ ہم نے اپنے سٹیشن سے کوئی چار سو کلو میٹر دور ایک بستی میں ریڈ کر کے خطرناک گروہ کے سرغنہ اور سفاک قاتل کو گرفتار کیا۔ جو اس بستی میں بھیس بدل کر رہ رہا تھا اور بستی کی مسجد میں امامت کرواتا تھا۔ یہ گروہ تاوان کے لیے لوگوں کو اغوا کرتے۔ تاوان کی رقم ملنے کے باوجود بے رحمی سے مغویوں کو قتل کر دیتے۔

جب ہم اس کے ہاتھ پیر آنکھیں باندھ کر گرفتار کرکے اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوئے تو دوران سفر وہ کہنے لگا میرے ساتھ باتیں کرو ورنہ میری دھڑکن رک جائے گی یہ تھی ایک پیشہ ور قاتل کی بہادری وہ طوطے کی طرح بول رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ ہونے والے بیسییوں مظالم اور زیادتیوں کی لمبی چوڑی داستان ہمیں سنا ڈالی۔ کبھی اپنے مجرم بننے کا الزام پولیس کو دیتا کبھی اپنے علاقے کے وڈیروں بڑے بڑے زمینداروں اور نوابوں کو موردالزام ٹھہراتا کبھی اپنی غربت کا رونا روتا بہرحال اس کی کہانی سن کر لگتا تھا جیسے یہ بشیرا فلم کا سلطان راہی ہو۔

اسی طرح ایک بار جسم فروشی کے اڈے سے ہم نے کچھ عورتوں مردوں کو انسانیت کی تذلیل کرتے اور رنگ رلیاں مناتے قابل اعتراض حالت میں گرفتار کیا۔ جب میں نے عورتوں سے پوچھا کہ تم یہ انتہائی گھٹیا قابل شرم اور غلیظ تر کام کیوں کرتی ہو کہ تمھیں عورت کہنا بھی عورت کے مقام کو گالی دینا لگتا ہے۔ تمھیں ذرا خیال نہیں آتا ایسے مردوں کے سامنے اپنے کپڑے اتار دیتی ہو جنھیں تم جانتی تک نہیں ہوتی۔ تم کسی کی ماں ہو کسی کی بیوی ہو کسی کی بیٹی ہو کسی کی بہن ہو۔ تمھیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔

تو ان میں سے ایک عورت روتے ہوئے بولی صاحب جی تو کیا کریں میری چار بیٹیاں ہیں۔ ایک چھوٹا بیٹا ہے اور سب کے سب ابھی چھوٹے ہیں۔ سکول جاتے ہیں میرا خاوند ہیروئین کا عادی ہے۔ جس دن اسے نشے کے لیے پیسے نہیں ملتے بچیوں کو مارتا ہے گھر کے برتن تک بیچ ڈالے اس درندہ صفت نے۔ میرے بچے سمجھتے ہیں میں ڈیوو بس میں بس ہوسٹس ہوں۔ میں کئی کئی دن گھر نہیں جاتی۔ ان کے خیال میں میں نوکری کرتی ہوں۔ آپ بتائیں ان حالات میں مجھ بے سہارا عورت کو کیا کرنا چاہیے تھا۔ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ مسلسل رو رہی تھی اور میں گنگ ہو چکا تھا۔

شاید وہ ہمدردی سمیٹنے کے لیے غلط بیانی کر رہی ہو مگر یہ معاشرے کا ایک سچ تھا۔ بے سہارا عورت محض ایک کھلونا بن کر رہ جاتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھٹیا لوگ صرف جسم فروش عورت کے جسم تک محدود رہتے ہیں ان کے دل میں کوئی نہیں جھانک کر دیکھتا۔ لاچار عورت کے جسم کو نوچنے والے گدھ احساس کی حس سے سے واقف ہی نہیں ہوتے ان کو اپنے شکار کی آنکھوں میں تیرتے محرومیوں کے بے بسی کے آنسو نظر ہی نہیں آتے۔ ان کا مقصد تو بس ماس نوچ نوچ کر کھانا اور منہ کالا کرنا ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک دفعہ میں نے ایک مشہورزمانہ منشیات فروش کو گرفتاری کے بعد کہا۔ تمھارے حالات دیکھ کر رحم آتا ہے۔ تمھارا باپ ہیروئین کی نذر ہو گیا تمھارے چچا نے نشے میں دھت ہو کر تمھاری پھوپھی کو گولی مار دی اور خود پھانسی چڑھ گیا۔ تمھارا چھوٹا بھائی اس نشے کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ تم خود افیون کھاتے ہو۔ تمھارا بڑا بیٹا شراب پیتا ہے زنا کاری کے اڈوں پہ جاتا ہے۔ اہل محلہ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ تمھارا پورا خاندان اس نشے کی لعنت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ محلے کے بہت سارے چھوٹے چھوٹے بچے اس نشے کی وجہ سے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے سے پہلے ہی اس میٹھے زہر کے عادی ہو کر موت کی اندھیری وادیوں میں چلے جاتے ہیں۔ تم اس قوم پہ نہیں تو اپنی آنے والی نسل پہ ہی ترس کھاؤ۔ تم یہ منشیات فروشی کا دھندہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔

تو میری ساری بات غور سے سننے کے بعد وہ بہت پریشان ہو گیا۔ اس کا سر جھک گیا شاید وہ شرمندہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی کا سیلاب امنڈ آیا۔ انتہائی جذباتی ہو کر کہنے لگا۔ سر آپ کو کیا لگتا ہے۔ جب میرا باپ حوالات میں ہیروئین کی ایک پُڑی مانگتے مانگتے سسک سسک کر مر گیا تو میں نے نہیں سوچا ہوگا کہ بس اب کبھی منشیات فروشی نہیں کرنی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں۔ جب کبھی میرا چھوٹا بھائی نشہ نہ ملنے سے بنا پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتا ہے ایڑیاں رگڑتا ہے میری ماں اس کا سر گود میں رکھ کر آنسو بہاتی ہے اور مجھے کہتی ہے لاؤ نشےکی پڑیا لاؤ۔ تو میں نہیں سوچتا کہ بس اب منشیات کا مکروہ دھندہ بند۔

جب میرا بیٹا شراب پی کر گلی میں غل غپاڑہ کرتا ہے۔ گندی عورتوں کے ساتھ منہ کالا کرتا ہے تو مجھے اس کاروبار سے گھن نہیں آتی۔ جب شہر میں کسی ہیروئنچی کی موت ہوتی ہے تو مجھے افسوس نہیں ہوتا۔ مجھے افسوس ہوتا ہے سر۔ شہر محلے گلی میں ہونے والی بہت ساری برائیوں کا ذمہ دار میں ہوں۔ آپ کو کیا لگتا ہے میں افیون چرس عیاشی کے لیے پیتا ہوں۔ جب میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے تو پھر میں نشے کاسہارا لیتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر منشیات فروش نشے کاعادی ہوتا ہے۔

مجھے اس کی بات سن کر حیرت ہوئی۔ کیوں کہ وہ ضمیر کی بات کر رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ منشیات فروش کا بھی ضمیر ہوتا ہے؟ اگر سچ مچ ضمیر ہوتا ہے تو پھروہ ضمیر کی آواز سنتا کیوں نہیں وہ منشیات فروشی چھوڑ کیوں نہیں دیتا۔ اس طرح کے بہت سارے سوال میرے خیالات کی وادی میں مچلنے لگے۔ میں نے پھر وہ ہی سوال دہرایا اگر ایسی بات ہے تم بھی کسی ضمیر نامی شے کو جانتے ہو تو پھر تم نے آج تک یہ معصوم زندگیوں سے کھیلنے کا کام بند کیوں نہیں کیا۔

اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ سر میرا دادا میرے چچا سب یہی کام کرتے تھے اور میرا باپ بھی یہی کام کرتا کرتا جیل میں بے بسی کی موت مر گیا۔ اس نے مجھے سکول بھیجا مگر پڑھنے کے لیے نہیں چرس بیچنے کے لیے۔ اس نے مجھے کوئی ہُنر نہیں سکھایا۔ کوئی نوکری میں کر نہیں سکتا۔ ویسے بھی پورا شہر جانتا ہے کہ میں منشیات فروش ہوں کون مجھے عزت دے گا کون مجھے عزت کا روزگار دے گا۔ نشہ ہمارے خون میں شامل ہے۔ آپ بتائیں ہم کیا کریں۔ میں اور میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ فارغ رہنا اچھا کھانا عیاشی کرنا میری مجبوری بن چکا ہے۔ اب اس غلاظت سے صرف موت چھٹکارا دلا سکتی ہے۔ میں چاہ کر بھی اس زہر فروشی کے کاروبار سے اور اس نشے کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتا میرا انجام بھی میرے باپ کی طرح بھیانک ہے سر۔

ہو سکتا ہے یہ جرائم پیشہ لوگوں کی کہانیاں سچ ہوں یہ بھی ہو سکتا کہ ہمدردیاں سمیٹنے کی ان کی کوشش ہو بہرحال جرم صرف جرم ہے چاہے جان بوجھ کر کیا جائے یا مجبوری کے عالم میں۔ مجرم کو پکڑنا کیفر کردار تک پہنچانا قانون کی بالادستی قائم کرنا ہمارا پیشہ ہے۔ ہم جرم سے نفرت کرتے تھے کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ان کہانیوں کی آڑ میں یا جذ بات کی لہر میں بہہ کر کسی کو جرم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی نہ کسی انسانیت کے قاتل کو کوئی رعایت دی جا سکتی ہے۔ دہشت گرد کرائے کے قاتل منشیات فروش جسم فروش عورتیں اغوا کار، ڈاکو جیب تراش چھوٹے موٹے چور ٹھگ ملاوٹ مافیا معاشرے کا ناسور تھے ناسور ہیں اور ناسور رہیں گے۔ ہماری ان سے جنگ تھی جنگ ہے اور جنگ رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).