جانور راج۔ تبدیلی کا سات نکاتی منشور


پہلے چند منٹ تو جانور اپنی خوش بختی پہ یقین ہی نہ کر پائے۔ سب سے پہلے تو وہ ایک جلوس کی شکل میں پورے باڑے کی حدوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے پھرے اور یہ پتا لگایا کہ کہیں کوئی آدم زاد تو نہیں چھپا ہوا؟ پھر وہ دڑکی لگا کے باڑے کی عمارتوں میں گھسے تاکہ، جانی صاحب کے نفرت انگیز دور کی یادگاروں کے آخری نشان بھی مٹا دیں۔ اصطبلوں کے آخر میں بنے، سازو رخت رکھنے کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا، مہمیز، نکیلیں، کتوں کی زنجیریں اور وہ سفاک چھریاں جن سے، جانی صاحب، سوؤروں اور میمنوں کو آختہ کرتے تھے، سب کی سب، کنوئیں میں غرق کر دی گئیں۔ باگیں، پٹے، اندھیاریاں اور ذلت بھرے توبڑے، صحن میں جلتے کوڑے کرکٹ کے ڈھیرپہ پھینک دیے گئے۔ اور سانٹے بھی۔ سانٹوں کو جلتا دیکھ کے تمام جانور خوشی سے کدکڑے لگانے لگے۔ سنوبال نے، وہ موباف بھی جلتی آگ میں دے مارے جنہیں، منڈی لے جاتے ہوئے، گھوڑوں کی ایالوں اور دموں میں گوندھا جاتا تھا۔
” موباف‘‘ اس نے کہا، ”لباس کی طرح ہی ہیں، جو کہ انسانیت کی علامت ہے۔ سب جانور ننگے پنگے رہیں گے ‘‘۔

باکسر نے جب یہ سنا تو اس نے اپنا تنکوں سے بنا، ٹوپ، جو وہ گرمیوں میں مکھیوں کو کانوں میں گھسنے سے روکنے کے لئے پہنا کرتا تھا، لا کر باقی سب چیزوں کے ساتھ نذر آتش کر دیا۔
ذرا ہی دیر میں جانوروں نے جانی صاحب کی یاد دلانے والی ایک کی ایک چیز تباہ کر ڈالی۔ پھر نپولین ان کو دوبارہ، بھنڈار تک لے گیا، جہاں ان سبھوں کو، مکئی کا دگنا راشن ملا اور ہر کتے کو دو دو بسکٹ ملے۔ پھر انہوں نے، ’ وحوشِ انگلستان کا ترانہ ‘ کوئی سات بار، شروع سے آخر تک گایا اور پھر وہ شب باشی کو لیٹے اور ایسا سوئے جیسا وہ کبھی نہ سوئے تھے۔

مگرنور کے تڑکے ہی، حسبِ معمول ان کی آنکھ کھل گئی، اور اچانک ہی اپنی فتح یاد آنے پہ سب کے سب اکٹھے، چراگاہ میں دوڑ گئے۔ چراگاہ میں ذرا سا آگے ایک ٹیکری سی تھی جس سے قریباً پورا فارم نظر آتا تھا۔ جانور، بھاگ کے اس کی چوٹی پہ پہنچے اور صبح کی شفاف روشنی میں اپنے ارد گرد دیکھا۔ ہاں! وہ ان کا تھا۔ تاحدِ نظر ان کا! اس سوچ کے خمار میں وہ انہوں نے کلیلیں بھریں، خوشی کی شدت میں قلانچیں لگائیں۔ وہ اوس میں لوٹے، اور میٹھی بہاریہ گھاس منہ بھر بھر کے کھودی، کھروں سے مٹی کے ڈھیلے اچھالے اور اس کی سوندھی مہک سونگی۔

پھر انہوں نے باڑے کا معائنہ کرنے کو پورا چکر لگایا اورایک سکتے کے سے عالم میں، ہل پھرے زمینوں، جئی کے کھیتوں، پھلوں کے باغ، تلیا اور دب کی جھاڑیوں کو تعریفی نظروں سے تکتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے یہ سب کچھ انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا اور اب بھی وہ مشکل سے ہی یقین کر پا رہے تھے کہ یہ سب ان کا ہے۔ پھر وہ قطار اندر قطار، چلتے ہوئے جانی صاحب کے مکان کے دروازے کے سامنے جا کر خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔

یہ بھی ان ہی کا تھا، مگر وہ اندر جاتے ہوئے ڈر رہے تھے۔ پر، چند ثانیوں میں ہی، سنو بال اور نپولین نے اپنے کندھوں کی ٹکروں سے دروازہ کھول لیا اور جانور ایک قطار کی صورت میں دبے پاؤں، ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئے۔ وہ بڑی گربہ پائی سے، کھس پھس کرتے اور ایک تحیر آمیز رعب میں اس ناقابلِ یقین تعیش کو دیکھتے ہوئے کمرہ در کمرہ پھرے۔ پنکھ بھرے گدیلوں والے چھپر کھٹ، آئینے، سموری صوفہ، ایرانی قالین، نشست گاہ کے کارنس پہ سجی، ملکہ وکٹوریہ کہ چھپی ہوئی تصویر۔ وہ زینوں سے نیچے اتر ہی رہے تھے کہ معلوم ہوا، مولی کھو گئی ہے۔ واپس جا کے انہوں نے دیکھا کہ مولی سب سے اچھی خواب گاہ میں رہ گئی تھی۔ اس نے بیگم جانی کی سنگھار میز سے ایک نیلا موباف اٹھا لیا تھا اور اسے اپنے ساتھ لگا کے آئینے میں، بڑے ہی احمقانہ انداز میں خود کو سراہ رہی تھی۔

انہوں نے اس کو سختی سے دھمکایا اور پھر وہ باہر چلے گئے۔ باورچی خانے میں لٹکتے، سؤر کے گوشت کے کچھ پارچے، تدفین کے لئے اٹھا لئے گئے، کھرے میں رکھا بئیر کا پیپا، باکسر کی ایک زوردار دولتی سے پچو کر دیا گیا، اس کے علاوہ مکان میں کسی شے کو بھی نہ چھیڑا گیا۔ وہیں کھڑے کھڑے ایک نکاتی قرار داد منظور ہوئی کہ مکان کو ایک ’ عجائب گھر ‘ کے طور پہ محفوظ کر لیا جائے گا۔ سب ہی نے اتفاق کیا کہ کوئی بھی جانور یہاں کبھی نہیں رہے گا۔

جانوروں نے ناشتہ کیا اور پھر سنو بال اور نپولین نے انہیں اکٹھا کیا۔
’ کامریڈز!‘‘ سنو بال نے کہا، ’ ابھی ساڑھے چھہ ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے پورا دن پڑا ہے۔ آج ہم جئی کو ہاتھ لگائیں گے۔ مگر سرِ دست ایک مسئلہ اور ہے جسے حل ہونا چاہیے۔ ‘‘
اب سؤروں نے یہ راز کھولا کے پچھلے تین ماہ میں انہوں نے ایک جانی صاحب کے بچوں کے ایک پرانے قاعدے سے جو کوڑے کے ڈھیر پہ پڑا تھا، پڑھنا لکھنا سیکھ لیا ہے۔ نپولین نے سفید اور سیاہ رنگ کے کنستر منگائے اور، بڑی سڑک کی طرف جانے والے پھاٹک کا رخ کیا۔

پھر سنو بال نے ( کیونکہ اس کا خط بہت خوبصورت تھا )اپنے کھر میں ایک مؤقلم پھنسایا اور پھاٹک کے اوپر لکھے، ’ آدم جانی کا باڑہ ‘ کے الفاظ پہ رنگ کا پجارہ پھیرا اور اس کی جگہ، ” جانوروں کا باڑہ ‘‘ لکھ دیا۔ اب سے یہ ہی باڑے کا نام تھا۔ پھر وہ باڑے کی عمارتوں کی طرف پلٹے، نپولین اور سنو بال نے ایک سیڑھی منگائی جو بڑے گودام کی آخری د یوار کے ساتھ لگا دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ گئے تین ماہ میں حاصل کیے گئے علم کے زور پہ ان سؤروں نے ’ حیوانیت ‘‘ کے اصولوں کو مختصراً سات نکات میں ڈھال لیا ہے۔ یہ سات نکات اب نوشتۂ دیوارکیے جائیں گے؛ یہ ایک ایسا ناقابلِ ترمیم قانون ہو گا کہ جس کے تحت، ’ جانوروں کے باڑے ‘ کے تمام جانور اپنی زندگیاں گزاریں گے آج سے تا بہ ابد۔ تھوڑی سی مشکل اٹھا کے، (کیونکہ ایک سؤر کے لئے، سیڑھی پہ توازن قائم رکھنا خاصا مشکل ہوتا ہے ) سنو بال چڑھ گیا اور کام شروع کر دیا۔

چیخم چاخ، چند ڈنڈے پیچھے، چونے کی کنستری اٹھائے کھڑا تھا۔ تارکول پھری دیوار پہ نکات، سفید جلی حروف میں ایسے لکھے گئے کہ تیس گز دور سے بھی پڑھے جاتے تھے۔ وہ کچھ یوں تھے :

سات نکات
1) ہر دو پایہ دشمن ہے۔
2) ہر چوپایہ اور پردار جانور دوست ہے۔
3) کوئی جانور لباس نہیں پہنے گا۔
4) کوئی جانور بچھونے پر نہیں سوئے گا۔
5) کوئی جانور شراب نہیں پیئے گا۔
6) کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا۔
7) تمام جانور برابر ہیں۔

یہ بہت عمدگی سے لکھے گئے، سب کے سب ہجے درست تھے، سوائے اس کے کہ ’، دوست‘ ’ ودست‘ ہو گیا اور ’ ق‘ کی جگہ ’ ک ‘ لکھا گیا۔ سنو بال نے اسے با آوازِ بلند پڑھا تاکہ سب ہی مستفید ہو سکیں۔ سب جانوروں نے مکمل حمایت میں سر ہلایا اور ذہین جنوں نے فوراً ہی ان نکات کو حفظ کرنا شروع کر لیا۔

”اب، کامریڈز!‘ سنوبال نے موء قلم پھینکتے ہوئے کہا، ” جو کے کھیتوں کی طرف، چلیں! اور اب یہ ہماری انا کا مسئلہ ہے کہ ہم، جانی صاحب اور اس کے گماشتوں سے پہلے فصل کاٹ لیں۔ ‘‘
مگر اسی لمحے تینوں گائیوں نے جو ذرا دیر سے کچھ بے چین سی نظر آرہی تھیں، ڈکرانا شروع کر دیا۔ انہیں گذشتہ چوبیس گھنٹے سے نہ دوہا گیا تھا اور ان کے ہوانے پھٹنے کو تھے۔ ذرا سی سوچ بچار کے بعد، سوؤروں نے بالٹیاں منگائیں اور بڑی کامیابی سے گائیں دوہ لیں ان کے کھر اس کام کے لئے موزوں ثابت ہوئے۔ جلد ہی، پانچ بالٹیاں، چکنے، جھاگ والے دودھ سے بھر گئیں، جن کی طرف، بہت سے جانور بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے۔

کسی نے پوچھا بھی، ” اتنے سارے دودھ کا کیا کیا جائے گا؟ ‘‘
مرغیوں میں سے ایک کٹکی، ” جانی صاحب، کبھی کبھار اس میں سے کچھ ہمارے ملیدے میں ملا دیا کرتا تھا۔ ‘‘

” دودھ کی فکر چھوڑو کامریڈز!‘‘ نپولین، بالٹیوں کے سامنے کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔ ” اس کا حل ڈھونڈھ لیا جائے گا۔ کٹائی کا کام زیادہ اہم ہے۔ کامریڈ سنو بال آپ کی رہنمائی کریں گے۔ میں بھی چند ہی منٹوں میں آملوں گا۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو! جو کی فصل پکارتی ہے! ‘‘
پس جانور، جو کے کھیتوں کی طرف کٹائی کرنے کو کوچ کر گئے اور جب وہ شام ڈھلے واپس آئے تو پتا چلا کہ دودھ غائب ہو چکا ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج : انقلاب آ گیاجانور راج: ”اب سب جانور کامریڈز ہیں“۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).