نوجوان لکھنے والوں کے نام کچھ معروضات


“ہم سب” کی ٹیم آپ کے خیالات کی قدر کرتی ہے۔ ہمیں اچھی طرح احساس ہے کہ ہمارے لکھنے والے بغیر کسی مالی مفاد کے محض ملک و قوم کی بہتری کے لئے، اجتماعی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے، اپنا قیمتی وقت نکال کر ہمیں اپنی تحریروں سے نوازتے ہیں۔ ہم سب کے لئے ہر لکھنے والا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ہمیں آپ کی تحریریں شائع کر کے خوشی ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے محدود ادارتی وسائل کے پیش نظر ضروری ہے کہ آپ کی توجہ کچھ امور کی جانب دلائی جائے۔

از رہ کرم ایک ہفتے میں دو سے زیادہ تحریریں نہ لکھیں۔ اپنے موضوع پر زیادہ تحقیق کریں۔ املا اور رموز اوقاف کا خیال رکھیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے لکھنے والے اپنی تحریر پر نظر ثانی نہیں کر رہے۔ جو اغلاط ابتدا میں درست کی گئیں، وہ بدستور نظر آ رہی ہیں۔ اگر ایک ہی غلطی بار بار دہرائی جائے تو ادارتی عملہ اسے اپنی بے توقیری سمجھتا ہے کیونکہ شائبہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا گویا ادارتی عملے کی طرف سے تجویز کردہ تبدیلیوں کو ذہن نشین کرنا اور آئندہ احتیاط کرنے کی زحمت تک نہیں کر رہا۔

حقائق کی درستی کا خاص خیال رکھیں۔ جہاں تک ممکن ہو، ہر واقعے کی تاریخ اور متعلقہ حوالے کی تصدیق ضرور کریں۔ سنی سنائی روایات بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

تحریر کے اختصار کا خاص خیال رکھیں۔ آپ سب نے اردو ادب سمیت عالمی ادب کے مشاہیر تک کو پڑھ رکھا ہے۔ کفایت لفظی ہر اچھے لکھنے والے کی پہچان ہے۔ جملے کی ساخت چست ہونی چاہیے۔ اس کے لئے مشق اور نظر ثانی کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ آن لائن جرنلزم میں معیاری تحریر کی طوالت 800 سے 1200 الفاظ تک ہونی چاہیے۔

تحریر میں کوئی مرکزی خیال ضرور ہونا چاہیے۔ کلیہ یہ ہے کہ پڑھنے والا تحریر ختم کرنے کے بعد ایک جملے میں تحریر کا مرکزی خیال بیان کر سکے۔

غیر ضروری تفصیل سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر کوئی تفصیل تحریر کی معنویت میں اضافہ نہیں کرتی تو اسے حذف کر دینا چاہیے۔ ہنرمند کا کمال صرف بیان میں نہیں، ضبط بیان میں بھی نظر آنا چاہیے۔

ذاتی رائے اور زور بیان کی بجائے اپنی تحریر کو اعداد و شمار اور دلائل کی مدد سے اعتبار بخشنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک ہفتے میں پانچ تحریریں بھیجنے کی بجائے ایک یا دو تحریریں قلم بند کریں اور باقی وقت میں متعلقہ موضوعات پر مطالعہ کریں۔ اس وقت جن ادیبوں اور صحافیوں کو آپ پیشہ ورانہ کمال اور شہرت کی بلندیوں پر دیکھ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی راتوں رات اس مقام تک نہیں پہنچا۔ ان سب نے برسوں گہرا مطالعہ کیا ہے اور لکھنے کے ہنر کی انتھک مشق کی ہے۔

پامال اصطلاحات، گھسی پٹی تراکیب اور پیرائیہ بیان سے گریز کرنا چاہیے۔ محاورے کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔ ہر زبان کے محاورے ایک خاص عہد کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان محاوروں کے پس پشت اقدار بدل جاتی ہیں۔ لکھنے والے کو آج کے زمانے کی سماجی اور سیاسی حساسیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

نئے لکھنے والوں اور ہر طرح کے خیالات کو جگہ دینا “ہم سب” کے مقاصد میں شامل ہے۔ ہر لکھنے والے کے لئے ہماری ایک ہی پالیسی ہے۔ اپنے ضمیر کی روشنی میں لکھیئے۔ ضمیر کی روشنی کا مطلب دوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی یا نازیبا زبان استعمال کرنا نہیں ہوتا۔ سخت سے سخت بات بھی صاف، شائستہ اور نرم لہجے میں کی جا سکتی ہے۔

خیال رکھیئے کہ آپ کو اپنی رائے قائم کرنے اور بیان کی آزادی ہے لیکن دوسرے بھی یہی حق رکھتے ہیں۔ اگر ہم اس لہجے میں اپنی بات کریں گے کہ ہم بالکل درست ہیں اور دوسرے قطعی طور پر غلط ہیں تو کوئی بامعنی مکالمہ ممکن نہیں ہوتا۔ ہر رائے کے حق اور مخالفت میں دلائل موجود ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک ایک طویل عرصے سے سیاسی اور سماجی طور پر قطبیت (Polarization) کا شکار رہا ہے۔ یعنی ہم ہر معاملے کو سیاہ اور سفید کے دوٹوک انداز میں دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ رویہ کسی فرد یا گروہ کے ذہنی طور پر پسماندہ ہونے کی علامت ہے۔ علم اور تہذیب کا تقاضا ہے کہ اپنی رائے کے غلط ہونے کے امکان کو بھی مد نظر رکھا جائے۔

لکھتے وقت خاص خیال رکھیں کہ آپ اپنے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے افراد سے بات کر رہے ہیں۔ جو پڑھنے والے آپ کے نقطہ نظر سے اتفاق رکھتے ہیں، وہ آپ کی تحریر پر تحسین اور ستائش تو کریں گے لیکن ان کی تعریف سے معاشرے میں آپ کے نقطہ نظر کی ترویج نہیں ہوگی۔ آپ کی کامیابی اپنے مخالف کو قائل کرنے میں ہے۔ اس کے لئے موزوں انداز بیان اور پڑھنے والے کے حق اختلاف کا احترام کرنا پڑتا ہے۔

جس طرح لکھنے والوں کا احترام “ہم سب” پر واجب ہے اسی طرح “ہم سب” کے پڑھنے والوں کا احترام بھی تقاضا کرتا ہے کہ انہیں غیرمعیاری تحریریں پڑھنے کی زحمت سے محفوظ رکھا جائے۔ اگر آپ کی کوئی تحریر اشاعت سے محروم رہتی ہے تو دل برداشتہ ہونے کی بجائے دوبارہ کوشش کیجئے۔

“ہم سب” میں ہر تحریر کے آخر میں پڑھنے والوں کی آرا اور تبصروں کے لئے جگہ موجود ہوتی ہے۔ اس سہولت کا مقصد یہ ہے کہ لکھنے والوں کی رہنمائی ہو سکے۔ وہ اپنی غلطیاں دور کر سکیں اور انہیں اندازہ ہو سکے کہ ان کے موقف کی کس حد تک ترسیل ہو سکی ہے۔ پڑھنے والے اس جگہ پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں لیکن اگر لعنت ملامت اور اخلاق سے گری ہوئی زبان ہی میں تبصرے لکھنا ہیں تو اس سہولت کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ ایک گزارش یہ ہے کہ یا تو اردو میں تبصرہ لکھیئے یا انگریزی زبان میں۔ رومن حروف میں اکثر تبصروں کا درست ابلاغ نہیں ہو پاتا اور اس سے تبصرہ کرنے والے کی علمی اور ذہنی اہلیت کا تاثر بھی خراب ہوتا ہے۔

آخری گزارش یہ ہے کہ “ہم سب” کے ادارتی وسائل محدود اور رضاکارانہ ہیں۔ آپ اپنی تحریر کو جس قدر صاف اور غلطیوں سے پاک انداز میں پیش کریں گے، ادارتی عملے کو آپ کی تحریر پر کم وقت صرف کرنا پڑے گا اور آپ کی تحریر کی اشاعت کا امکان بڑھ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).