الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر پھکڑ پن کی وجوہات اور اس کا سد باب


بچوں کی تعلیم و تربیت میں جہاں والدین، اساتذہ کرام اور بزرگوں کا بنیادی و اہم کردار ہوتا ہے، وہیں بچوں میں علمی و ادبی اور سیاسی شعور کی ترویج اور بے داری میں بھی ان ہی بڑوں اور بزرگوں کی صحبت کا اثر ہوتا ہے۔ ایک عرصہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام کی خامیوں و خوبیوں کا بخوبی ادراک ہے۔ تجربہ و مشاہدہ یہی ہے، کہ مشترکہ خاندانی نظام بچوں کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے مثبت پہلو رکھتا ہے۔

60 اور 70 کی دہائی میں اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی وطن عزیز میں ذرائع ابلاغ کا مؤثر حصہ بن چکے تھے۔ ہمارے محلے کے قریبا ہر گھر میں اخبار آتا تھا، جو بڑے و بچے یکساں ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ اور بزرگ بچوں سے اخبار پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ آج تھوڑی بہت اردو اور انگریزی لکھنا پڑھنا جو سیکھ گئے ہیں، اس میں بڑا کردار اخبارات کا ہی ہے۔ اخبارات پڑھنے سے جہاں علمی و ادبی معلومات اور استعداد میں اضافہ ہوتا تھا، وہیں سیاسی و بین الاقوامی معاملات و امور کے بارے میں سمجھ اور آ گاہی بھی حاصل ہوتی تھی۔
وطن عزیز میں 60، 70 اور 80 کی دہائی داخلی و خارجی سیاست اور بین الاقوامی سطح پر کافی ہنگامہ خیز رہی ہے۔

1965 اور 1971 کی پاک و بھارت جنگ، 1965 کے صدارتی، 1970۔ 77 کے عام انتخابات اور افغان جنگ نے وطن عزیز کی سیاسی، معاشی، سماجی و معاشرتی سطح پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ پاک و بھارت اور افغان جنگ کی خبریں و تفصیلات، صدارتی و عام انتخابات کے نتائج اورعام انتخابات میں ٹی وی کی خصوصی ٹرانسمیشن میں سیاسی تجزیے اور طنز و مزاح سے بھر پور سیاسی و غیر سیاسی خاکے سیاسی تلخی اور اختلافات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے تھے۔

گھر کے تمام افراد اکٹھے بیٹھ کر ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرامز سنا اور دیکھا کرتے تھے۔ ’ حامد میاں کے یہاں ‘ ریڈیو کا مشہور زمانہ ڈرامہ تھا، جو ایک طویل عرصے ریڈیو سے نشر ہوتا رہا اور گھر کے بڑوں کا پسندیدہ پروگرام ہوتا تھا۔ ڈرامہ ’ حامد میاں کے یہاں ‘ میں ہلکے پھلکے انداز اور صاف و ستھری زبان میں سیاسی، سماجی و معاشرتی مسائل اجاگر کیے جاتے تھے۔ اسی طرح سے ٹی وی پر خبروں، سیاسی تجزیوں کے علاوہ ڈرامے، طنز و مزاح پر مبنی پروگرامز کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے مختصر دورانیے کے مشہور زمانہ کارٹون اور اصلاح کے ساتھ چھوٹی موٹی شرارتوں سے بھرپور ڈرامے اور موسیقی کا پروگرام ’ کلیوں کی مالا ‘ پیش ہوتے تھے۔

گر تو برا نہ مانے، ٹال مٹول، گپ شپ، الف نون، لاکھوں میں تین، انتظار فرمائیے، ففٹی فٹی جیسے طنز و مزاح کے پروگرامز محسن شیرازی، شعیب ہاشمی، کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان اور انور مقصود جیسی علمی ادبی شخصیات اور ان کی ٹیم شائستہ و مہزب اداکاروں اور کامیڈینز کے ساتھ مل کر ٹی وی پر پیش کیا کرتے تھے۔ اداکار و صداکارضیاء محی الدین کا ’ ضیاء شو ‘ ٹی وی کا مقبول اسٹیج شو تھا۔

پی ٹی وی پر اسلم اظہر، آغا ناصر، کنور آفتاب احمد، محمد نثار حسین، امیر امام، محسن علی، مصلح الدین، یاور حیات اور ظہیر خان جیسے ڈائریکٹرزموجود تھے۔ اے حمید، حمید کاشمیری، اسد محمد خان، ڈاکٹر انور سجاد، سلیم احمد، منو بھائی، سلیم چشتی، فاطمہ ثریا بجیا، محترم فاروق قیصر، محترم انور مقصود، محترمہ حسینہ معین، محترم عطاء الحق قاسمی، محترمہ نو ر الہدی شاہ جیسے مصنفین نے بہترین طویل اور مختصر دورانیے کے ڈرامے، سیریل اور کھیل پی ٹی وی کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کیے۔ جن کی مقبولیت آج بھی روز اول کی طرح قائم ہے۔

نمایاں اداکاروں میں محمد قوی خان، علی اعجاز، سلیم ناصر، قاضی واجد، منور سعید، ڈاکٹر انور سجاد، محمود علی، ظفر مسعود، راحت کاظمی، مسعود اختر، بیگم خورشید مرزا، عشرت ہاشمی، روحی بانو، خالدہ ریاست جیسے چوٹی کے اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا پی ٹی وی پر ہی منوایا ہے۔ پی ٹی وی پرتفریحی پروگرامز، کھیل اور ڈرامے ایک ضابطہ اخلاق کے تحت عوام کے سامنے پیش کیے جاتے رہے اور عوام میں مقبولیت بھی حاصل کرتے رہے۔ لیکن موجودہ صدی کے آغازمیں جب الیکٹرونک میڈیا کو آزادی ملی، تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص منصوبے کے تحت اسٹیج پروگرامز میں سیاست دانوں کی ذاتی و سیاسی زندگی کی ایسے کامیڈینز اور اداکاروں کے ذریعے بھد اڑائی گئی، جن کے اسٹیج ڈرامے کوئی بھی ذی شعور شخص اپنے خاندان کے ہمراہ آڈیٹوریم میں جا کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔

عوام خصوصانوجوان نسل نے سیاست دانوں کی بھد جس طرح ان پروگرامز میں اڑتی دیکھی، اس کا اثر ان کی ذاتی زندگی پر بھی پڑا اور سیاسی مباحث اور سوشل میڈیا پر بھی عوام اور نوجوان نسل نے عدم برداشت اور پھکڑ پن کا ثبوت دینا شروع کردیا۔ ان پروگرامز نے پھکڑ پن کو طنز و مزاح تعبیر کردیا ہے۔ اور عوام کی اکثریت طنز و مزاح سے نا بلد ہوچکی ہے۔ پی ٹی وی بھی اسی وجہ سے نجی ٹی وی چینلز کا پھکڑ پن میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر عوام کی غیر ضروری بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سے اخباری صنعت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔

یہ وہ وجوہات ہیں، جس کی وجہ سے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر کسی کے جینے مرنے پر بھی عدم برداشت پر مبنی اور واہیات گفتگوسننے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔ اب بھی وقت ہے، کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی تھوڑی بہت آزادی کا خیال کرتے ہوئے، ایسے پروگرامز کے خالق اور پیش کار اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہوئے، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پی ٹی ی کے سابق ڈائرکٹرز، مصنفین اور اداکاروں کے معیار پر پرکھیں اور اس میں بہتری لائیں۔ اگر اس طرح کے پروگرامز اسی رنگ و ڈھنگ سے عوام کے سامنے پیش کیے جاتے رہے، تو اندیشہ یہی ہے کے عوام خصوصا نو جوان نسل روزمرہ کی گفتگو میں بھی پھکڑ پن اور بے ہودہ الفاظ کا استعمال کرنا نہ شروع کردیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).