پاکستانی معیشت یاایک تجربہ گاہ


دنیا کے کسی بھی ملک کی معیشت پر جب بھی کوئی تحقیق یا تبصرہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ کسی مخصوص معاشی نظام کو اپنائے ہوئے ہے اور اس کے تحت اپنے معاشی اہداف بھی مقرر کیے ہوئے ہے جن کی کسوٹی پر ملکی معیشت کی کارکردگی کو جانچا جاتا ہے۔ اگر کارکردگی بہتر ہو تو اہداف کو مزید وسیع کیا جاتا ہے اور اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو وسائل کی چادر کو دیکھتے ہوئے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

اہداف کو تو وسائل اور حالات کے پیش نظر تبدیل کیا جاتا ہے مگر پورے کا پورا معاشی نظام تبدیل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ ملکی معیشت کی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم امریکی معیشت کی بات کریں تو وہاں سرمایہ دارانہ نظام جبکہ چین میں سوشلزم رائج ہے۔ گو کہ وقت کے ساتھ ساتھ دو مختلف معاشی نظام کو مخلوط بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ چین کی ماضی قریب کی معاشی پالیسی سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کا اختلاط ہے مگر پھر بھی بنیادی طور پر چین ایک سوشلسٹ اکانومی ہی ہے۔

کبھی کوئی نیا ٹیکس متعارف کرانا، کوئی ٹیکس ختم کرنا یا کسی ٹیکس کی شرح کم یا زیادہ کرنا تو بہرحال ایک صحتمند معیشت کا خاصہ ہے مگر سرے سے کوئی واضح معاشی نظام نا ہونا سوائے معاشی پستی اور بدحالی کے کچھ اور نہیں دے سکتا۔

اب ایک نظر ڈالتے ہیں پاکستان کے معاشی نظام پر تو بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم جھولے کی طرح کبھی اس طرف تو کبھی دوسری طرف اچھلتے رہے۔ کبھی ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنایا تو کبھی سوشلسٹ نظام کا جھانسہ دے کر سارے صنعتی یونٹس کو قومیا دیا اور کسی اور نے آ کر کہا کہ سب معاشی نظام باطل کی طرف سے بنائے گئے سامراجی نظام ہیں اور اسلامی معاشی نظام نافذ کرنے کا ڈھونگ رچایا۔ کسی نے بائیس خاندانوں کو نوازا تو کسی نے ان سب کی ملکیتیں قومی خزانے میں جمع کروا دیں۔ المختصر کہ ستر سالہ تاریخ میں اتنی عجلت سے معاشی نظام کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا کہ آج بھی سوئی سے لے کر بلب تک تقریبا ہر عام استعمال کی چیز درآمد کی جاتی ہے۔

آج تک ہم فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کون سا معاشی نظام ہمارے لیے بہتر ہے۔ جب تک کوئی ایک نظام رائج نہیں ہوگا اور اس کے مطابق مستحکم معاشی پالیسی نہیں بنائی جائے گی تب تک خود انحصاری ایک دیوانے کا خواب ہی رہے گی کیونکہ اس سے پہلے جو بھی مسند اقتدار پر براجمان رہے ہیں اپنی مرضی کا نظام رائج کیا ہے۔ کسی نے نیا دارالحکومت بنانے کے لیے ملک کے تین دریا دشمن ملک کو فروخت کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی تو کسی نے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے ان کی جائیدادیں ہی قومیانے کے نام پر ہڑپ کر لیں۔

بحرحال جو غلطیاں ماضی میں کی گئیں اگر ان سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اب بھی ان کا تسلسل برقرار رکھا گیا تو شاید کبھی ہم سنبھل نا پائیں گے۔ موجودہ حکومت کی ساری توجہ اول تو اس بات پر ہونی چاہیے کہ ملک میں کون سا معاشی نظام مروج کرنا ہے۔ واضح نظام اپنانے کے بجائے اگر اب بھی چوں چوں کا مربہ نما سسٹم ہی چلایا گیا تو پچھلے ادوار میں اور اس حکومت میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اگر ساری توانائی ڈیم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں لگائی گئی تو تاریخ یہ لکھے گی کہ ہر حکومت کی طرح پی ٹی آئی نے بھی ٹائم ٹپاؤ پالیسی ہی اختیار کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).