گٹکا ایک ایسا زہریلا نشہ جس نے نوجوان نسل تباہ کر کے رکھ دی


نشہ چاہے۔ کیسا بھی ہو نشہ تو نشہ ہی ہوتا ہے۔ سندھ بھر میں زہر آلودہ ایک ایسے نشے کی بھرمار لگی ہوئی ہے۔ جسے گٹکے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سندھ صوبہ جہاں دوسرے صوبوں کی نسبت گڈ گورننس میں سب سے پیچھے ہے۔ اور خراب اقتصادی صورتحال کرپشن اور اقرباپروری کی آواز صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔ وہیں صوبے بھر میں مختلف اقسام کی نشہ آور اجزاء کی فروخت میں نمایاں اضافہ دکھائی دیتا ہے۔ جس میں گٹکا سرفہرست ہے۔ گٹکا نامی نشے کا آغاز سندھ کے شہر کوٹ غلام محمد سے ہوا جو اب نشہ آور اشیاء کی بناوٹ اور فروخت کا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے۔

بقول پی ٹی آئی رہنما نثار جٹ کے جن کا اس شہر کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ کہتے ہیں کینیڈا کے انگریز بھی اس شہر کو گٹکے جیسے گندے نشے کی وجہ سے پہچانتے ہیں جہاں گٹکا مافیا سرکاری سرپرستی میں اس حد تک سرگرم ہے۔ کہ کوئی بھی انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے والی مافیا کے خلاف آواز تک بلند نہیں کر پا رہا کیوں کہ گٹکا مافیا کی جانب سے پولیس کو منتھلی /بھتے کے نام سے لاکھوں روپے دیے جاتے ہیں۔

چھوٹے سے شہر کوٹ غلام محمد میں گٹکے کی آٹھ فیکٹریاں ہیں جہاں سے گٹکا تیار کر کے مختلف علاقوں میں سپلائی آسانی سے کیا جاتا ہے۔ گٹکا نامی زہر کے استعمال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں نوجوان طبقے کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ جنہیں کینسر جیسے موذی مرض کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی مھلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب تک کئی نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے زہریلے گٹکے کی بناوٹ میں انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں مضر صحت تمباکو سپاری چونا کتھا بھینسوں کو لگائے جانے والے انجیکشن اوکسی ٹوکسی جو کہ انسانی دماغ کو سرور پہنچاتے ہیں سمیت انتہائی خطرناک کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ہیروئن کی طرح دو سے چار بار گٹکا استعمال کرنے والے افراد گٹکا کھانے کے عادی بن جاتے ہیں اور پھر لاکھ چاہیں گٹکا چھوڑنا لیکن گٹکا چھوڑنا ان کے لیے مشکل بن جاتا ہے۔ یہی نہیں گٹکے کا استعمال کرنے والے افراد کو سستی کاہلی دماغی کمزوری کام کاج میں دل نہ لگنے جیسے مسئلے درپیش ہوتیں ہیں اور یوں لاکھوں افراد کی زندگی اجیرن بنانے والا گٹکا نامی ناسور نہ صرف اس چھوٹے سے شہر بلکہ سندھ بھر کے نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہی کے کنارے پہنچانے کا سبب بنا ہوا ہے۔ آج سے چند سال قبل پہلا کینسر کا کیس سامنے آیا اور ٹرک ڈرائیور خادم حسین آرائیی زندگی کی بازی ہار گیا۔ اسی طرح شفیق مغل خراد مشین والے حافظ محمد اقبال آرا مشین والے ہومیوپیتھک ڈاکٹر افتخار آرائین فٹبالر محمد وسیم قائم خانی واپڈا ماسٹر محمد رضا قائم خانی مھیش کمار سیٹھ گوبند رام پالے سمیت لاتعداد افراد کینسر سمیت منہ کی مختلف بیماریوں سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ کوٹ غلام محمد شہر اور مضافاتی علاقوں میں ایسے کئی افراد ہیں جو کہ منہ کی گندی بیماریوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔

دوسری جانب پولیس کی طرف سے گٹکا مافیا کے خلاف موثر کارروائی نا ہونے کی وجہ سے گٹکا مافیا والے آزادی کے ساتھ گٹکا فیکٹریاں چلا رہے۔ ہیں اول تو پولیس بھتہ فراہم کرنے والے گٹکا فیکٹری مالکان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لاتی ہی نہیں کیوں کہ رشوت کے اس گرم بازار میں گٹکا مافیا اوپر تک رشوت پہنچا کر حکومتی سرپرستی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ گٹکا مافیا کے خلاف کارروائی میں پولیس روایتی انداز اپناتے ہوے چھاپے مارتی ہے۔ اور ایسے میں بڑے مگرمچھ کارروائیوں سے بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

زہر بنانے والی فیکٹریاں مکمل طور پر بند نا ہونے کی سب سے بڑی وجہ ضلعی اور ڈویژنل سطح کے پولیس افسران اور علاقے کے بڑے سیاستدان ہیں۔ دوسری جانب گٹکا مافیا سے تنگ شہریوں نے زہر آلودہ اس نشے کے خلاف تحریک بھی شروع کی ہے۔ جس کا مقصد شہر کو منشیات سے پاک کرنا ہے۔ گٹکا فیکٹری مالکان جو زہر بیچ کر لاکھوں روپے مالیت کا کالا دھن کماتے ہیں وہ ایسے میں حرام کو حلال قرار دینے میں مذہب کا سہارا لیتے ہوے چند پیسے خیر و خیرات پر خرچ کر کے مزے لوٹ رہے۔

ہیں عوام کے زندگیوں سے کھیلنے والے گٹکا فیکٹری مالکان نے شہر بھر میں بڑے بڑے محلات اور عالیشان بنگلے بھی بنا رکھے ہیں۔ تمام غیر قانونی کاموں کی روکتہام کے لیے ملک میں مثبت قانون سازی کا ہونا ضروری ہے۔ گٹکے سمیت مختلف اقسام کے نشوں کی روک تھام کے لیے کچھ عرصہ قبل سندھ اسیمبلی میں ایک بل پر بحث ہوتے دکھائی دی مگر شاید وہ بل چونکہ سیاستدانوں کی نہیں بلکہ عوام کی بھلائی کے لئے تھا اس لیے شاید ایسی قانون سازی کو مصلحتوں کی بلی چڑھا دیا گیا۔ خدارا گٹکے کے نام پر زہر بیچنے والی مافیاؤں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کر کے نوجوان نسل کو تباہ ہونے سے بچایا جائے تاکہ نشے کے نام پر زہر کا استعمال کرنے والے نئی نسل کے نوجوان معاشرے کے کارآمد شہری بن پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).