بیگم کلثوم نواز، مولانا فضل الرحمن اور دینی مدارس


حلقہ زہد و تقویٰ کے ارباب از قسم فضل الرحمان، اکرم درانی اور خادم رضوی کو ابال آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسلام خطرے میں ہے کے نقارے پر چوٹ پڑنے لگی ہے۔ مدارس کا نصاب بدلنے نہ دیں گے کے نعرے لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسلام کے ان قلعوں میں اصلاحات لانے کی کوشش کرنے والوں کو دشمن اسلام ٹھہرائے جانے کی تیاریاں پھر عروج پرہیں۔ چند دن قبل مولانانے میڈیا سے بات کرتے ہوئے وعید سنا دی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب تبدیل نہیں کرنے دیں گے۔ اسی طرح قادیانیوں کے مقاصد کی روک تھام کے لئے قوم کو متحرک کیا جائے گا۔ عملی جہاد کے لئے قوم کو میدان میں عمل لایا جائے گا۔

پاکستان میں یہ کھیل کوئی نیا تو نہیں۔ حکومت سے باہر رہ جانے والوں کو جو چیز سب سے زیادہ نظر آتی ہے وہ یہی تو ہے۔ اسلام کے گرد منڈلاتے بادل سب سے زیادہ اپوزیشن کو ہی نظر آتے ہیں۔ جب بھی حکومتی مراعات کی چمک دھمک ماند پڑتی ہے تو ایک دم دین کی محبت جاگ اٹھتی ہے۔ اسلام کی زبوں حالی ان بیچاروں سے دیکھی نہیں جاتی۔ ناموس رسالت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کی صدا گونجنے لگتی ہے۔ وعدوں اور قسموں کا موسم نکھر آتا ہے۔ قادیانیوں کی سرگرمیاں اور ناموس رسالت کی حفاظت کی ذمہ داریاں راتوں کی نیندیں حرام کر دیتی ہیں۔ لیکن اقتدار میں آتے ہی بینائی ٹھیک ہو جاتی ہے اور سب کچھ صاف صاف نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ خطرات کے بادل چھٹ جاتے اور اسلام کو نقصان پہنچانے والے فتنے دفن ہوجاتے ہیں۔ ستر سال سے یہی کھیل جاری ہے۔

مولانا کی اسلام کے لئے یہ محبت مجھے فلیش بیک میں لے گئی۔ اور حال ہی میں‘مادر جمہوریت‘ کا خطاب پانے والی محترمہ کلثوم نواز کے جلسوں میں لا کھڑا کیا۔ یہ اٹھارہ سال پرانا قصہ ہے۔ ایک گھریلو خاتون اپنے شوہر کو بچانے کے لئے میدان کارزار میں نکل آئی ہے۔ (جن کو یہ فقرہ پسند نہ ہو وہ شوہر کی جگہ پاکستان کالفظ پڑھ لیں ) جلسے جلوس شروع ہو چکے ہیں۔ یہ کارروائیاں نوازشریف کے معاہدے اور ملک سے روانگی تک جاری رہی۔ ان کاوشوں کی روئداد کتابی شکل میں ’ جبر اور جمہوریت ’ کے نام سے ساگر پبلشرز نے فروری 2007 میں شائع کی۔ اسی کتاب کے مندرجات کی روشنی میں ’ مادر جمہوریت ’کی کاوشوں کی کچھ جھلکیاں ہم دیکھیں گے۔

اکتوبر 1999، پرویز مشرف کرسی اقتدر پر براجمان ہو ئے تو نواز شریف جیل چلے گئے۔ مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور نواز شریف کے درباری اپنی وفا داریاں تبدیل کرکے نئے شاہ کے مصاحب ہو گئے۔ بیگم کلثوم نواز صاحبہ اپنے شوہر کی آزادی کے لئے سر گرم ہو گئیں۔ جلسے جلوس اور تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ بیگم صاحبہ کو اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے عوام کا ساتھ درکار تھا۔ اور عوام کو بھڑکانے کا آسان راستہ تھا مذہب کا استعمال اور عوام کو یہ باور کرانا کہ کشتی اسلام پھر بھنور میں پھنس چکی ہے۔ اس کا واحد محافظ قید کر لیا گیا ہے۔ محترمہ نے یہ کھیل خوب کھل کر کھیلا۔

انہوں نے کہا ہم دینی مدارس کو بچانے کے لیے ہر قربانی دیں گے (ص 54) اسلام کی اصل تعلیم کے وارث یہی دینی مدارس ہیں۔ ( ص61) گویا ان کی حکومت کے جاتے ہی مدارس کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے جس کے لئے وہ میدان عمل میں آ گئیں۔ عوام کو خبر دی کہ مشرف حکومت صرف دینی مدارس کو ختم کرنے کے لئے بنی ہے۔ لیکن اگر دینی مدارس پر ہاتھ ڈالا تو قوم کا بچہ بچہ کفن باند ہ کر تمھارے مقابلے کے لیے آجائے گا ( ص63) پھر وہ گھرگھر سے غازی علم دین کے پیدا ہونے کی نوید سناتی ہیں۔ (ص71) محترمہ اپنے خاوند کے اقتصادی، معاشی، سیاسی، اخلاقی، معاشرتی اقدامات اور کارنامے گنوانے اور قوم کو یاد کروانے میں تو ناکام رہیں۔ لیکن ہر تقریر میں اسلام کو درپیش خطرات بڑھتے ہی چلے گئے۔ مشرف حکومت مسیلمہ کذاب کے پیروکارو ں کی حکومت ٹھہری جو اسلام کے قلعے پر قابض ہو چکی تھی( ص108) یادرہے مولانا موصوف اس مشرف حکومت کا حصہ تھے۔ تاہم ایوان اقتدار کے ٹھنڈے کمروں میں مولانا کو کبھی نہیں لگا کہ اسلام خطرہ میں ہے۔

بیگم صاحبہ نے بتایا کہ نواز شریف ملک میں مارچ 2000 میں اسلامی نظام نافذ کرنے والے تھے۔ بس اسی بات کی سزا انہیں دی گئی ہے۔ انہیں عالم اسلام کے ہیرو کے طو رپر پیش کیا۔ نواز شریف اور اسلام کو لازم و ملزوم قرار دینے کا بیانیہ جاری کیا۔ (ص141) عوام کو بتایا گیا کہ مشرف حکومت غیرمسلموں کے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق نفاذ شریعت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے (ص116) بعد ازاں محترمہ کو بتایا گیا یا خود ان کو احساس ہوا کہ جب تک جمہوریت بحالی کے اس سفر میں قادیانی تڑکا نہ لگایا گیا، رنگ چوکھا نہیں آ ئے گا۔ چنانچہ پھر انہوں نے مشرف مارشل لا ء کو ’قادیانی انقلاب ’ کا نام دے ڈالا۔ (ص 136، 143) اب ہر تقریر میں یہ ’قادیانی سازش‘ بے نقاب ہونے لگی۔ جھجھک اتری تو مشرف کابینہ میں قادیانی وزیروں کی اطلاع عوام کو دے کر اسلام کے قلعے میں پڑتے شگافوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کرنے لگیں۔

محترمہ نے سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے اس وقت کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی پر توہین رسالت کا الزام لگا دیا۔ (ص134) جب اس سے بھی مطلوبہ نتائج نہ مل سکے تو ڈاکٹر غازی کو قادیانی وزیر ہونے کی سند تھما دی۔ (ص 143) یاد رہے ڈاکٹر محمود غازی احمدیوں کے خلاف کتاب لکھ کر پکے مسلمان ہونے کا ثبوت بھی دے چکے تھے۔ لیکن کلثوم نواز کو وہ قادیانی ہی نظر آتے رہے۔ ا س پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو فرمایا ملزموں کی سزاؤں کا تعین ربوہ میں کیا جاتا اور ڈرافٹ چیف ایگزیکٹو کے دفتر میں تیا ر ہوتا ہے۔ ہم نیب کی ربوہ میڈ سزاؤں کو نہیں مانتے۔ (ص153)
ملک میں مذہبی منافرت کا کاروبار عروج تک پہنچانے کے لئے ’ مادر جمہوریت‘ نے جمہوریت بحالی تحریک کے لئے غازی علم دین پیدا کرنے کی نوید ان الفاظ میں سنائی۔ ’آج میں سرفروشان اسلام کی دھرتی صوبہ سرحد میں کھڑی ہو کر یہ اعلان کرتی ہوں کہ اب گھر گھر غازی علم دین رحمۃ اللہ شہید پیدا کرنا ہوں گے‘۔ ( ص 143) نہ جانے کتنے غازیوں کی پنیری ان کے اس بیان نے لگا دی ہو گی۔ اور پھر اسی نواز شریف کی اگلی حکومت میں ’ ضرب عضب‘ اور‘ آپریشن رد الفساد‘ کے ذریعہ یہ فصل کاٹی گئی۔

مذہب کی سوداگری رنگ دکھانے لگی تو انہوں نے پوری مسلم دنیا کی نمائندگی کر تے ہوئے اہل کشمیر کو یہ خوشخبری سنا ڈالی۔ میں تمھیں عالم اسلام کی طر ف سے یقین دہانی کروا رہی ہوں کہ پوری دنیا کے مسلمان تمھاری آزادی کے لئے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔ (ص 118) نہ جانے عالم اسلام سے ان کی کیا مراد تھی۔ اورآج تک وہ‘مقدس فوجیں’ ارض پاک پر اس فریضہ کی انجام دہی کے لئے کیوں نہ اتر سکیں۔ مشرف حکومت تو ’قادیانی انقلاب‘تھی لیکن ان کے اپنے دور حکومت میں بھی یہ معجزہ ہم گنا ہ گار دیکھنے سے محروم ہی رہے۔

نواز شریف جیل میں تھے تو اسلام چاروں طرف سے خطرات میں گھر چکا تھا۔ پھر اچانک نواز شریف نے مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں سے معاہدہ کر کے روانگی کا پروانہ لے لیا۔ ا س کے ساتھ ہی اسلام پر سے خطرات ٹل گئے۔ اسلام کے قلعہ میں پڑتے شگاف بند ہو گئے۔ ایک سال تک ملک کے چپے چپے پر مذہبی منافرت کی فصل سیراب کر کے اور غازی علم دینوں کی پنیری لگا کر محترمہ کلثوم نواز اپنے خاوند اور فیملی کے ساتھ دس سال کے لئے جدہ روانہ ہوگئیں۔

یہ ہے اسلام کے سوداگروں کی ایک جھلک۔ اگر اس سوداگری پر ’مادر جمہوریت‘ کا خطاب بنتا ہے تو پھر فضل الرحمانوں، درانیوں اور رضویوں کے لئے ’پدران جمہوریت ’ کا خطاب تو لازمی ٹھرے گا۔ ان سے بڑا سوداگر شاید ہی کبھی پید اہو۔ ان کے لئے بھی میڈل اور خطابات کے بینرز اور کتبے تیار رکھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).