بچوں کے سیاسی شعور کی تربیت کریں ورنہ


حالیہ انتخابات میں میرے گیارہ سالہ بیٹے کے جوش و جذبات کا علم دیدنی تھا۔ شام کا کرکٹ کے لیے مختص اس کا وقت انتخابی کیمپوں پر گزرتا۔ وہ گھر آکر مجھے علاقے میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کی اپ ڈیٹ دیتا، سارا سارا دن پارٹی نغموں پر رقص کرتا اور دوستوں کو جمع کر کے نعرے بازی کرتا۔ انتخابات سے قبل اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک مہم چلائی۔ گتے کے ڈبوں کو کاٹ کر بیلٹ باکس تیار کیے ان پر انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کے نام لکھے اور گھر گھر جا کر پرچیوں پر ووٹ کاسٹ کروائے۔

حتیٰ کہ سڑک پر گزرنے والی گاڑیوں کو روک روک کر مسافروں سے بھی ووٹ لیا۔ جو بہت جلدی میں ہوتے ان سے پارٹی کا نام پوچھ کر ان کا ووٹ خود ہی ڈال دیا جاتا۔ یوں میرا بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ صبح و شام کی قید سے آزاد، بھوک پیاس سے بے نیاز الیکشن کی بچکانہ تیاریوں میں مصروف تھا۔ پچیس جولائی کی رات اس نے متوقع جیت کے اعلان کا جشن متعلقہ پارٹی کے ساتھ مل کر منایا اور خوب خوب بھنگڑا ڈالا۔

پورے پاکستان کی طرح میرا بیٹا بھی جس فکری تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا اس پر مجھے بہت سارے تحفظات تھے۔ ماضی سے لے کر آج تک پاکستانی نوجوانوں کے جذبات کو جس سیاسی جنون کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا ہے میں اس کا سوچتی اور پھر ایک نظر اپنے بیٹے کی سرگرمیوں پر ڈالتی تو فکر میں مبتلا ہوجاتی۔ پھر خود کو تسلی دیتی کہ انتخابی ہنگاموں کے بعد سب بھول جائے گا۔ آخر بچہ ہی تو ہے۔

خیر انتخابات نمٹے۔ بکھیڑے سمٹے۔ میرا بیٹا واپس اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مگن ہوگیا۔ کتابوں میں گم وہ مستقبل کا ڈاکٹر، انجنیئر یا پائلٹ لگنے لگا تو مجھے قرار آیا۔ لیکن یہ قرار بہت تھوڑے دنوں کا ثابت ہوا ایک دن کچن میں کام کرتے کرتے میرے کانوں میں سیاسی پارٹیوں کے نغموں کی آوازیں پھر گونجیں۔ اس بار یہ آوازیں باہر سے نہیں بلکہ گھر کے اندر سے آرہی تھیں۔ میں دوڑ کر کمرے میں گئی وہاں میرا بیٹا لیپ ٹاپ پر پارٹی نغموں پر مبنی ویڈیوز میں گم تھا۔ مجھے ذرا اندازہ نہ تھا کہ انتخابات جاتے جاتے میرے نابالغ بچے کا سیاسی شعور اتنا بالغ کر جائیں گے۔ بلوغت کے بعد تربیت کا نہ ہونا شخصیت کو جس طرح مسخ کرتا ہے مجھے اس احساس نے ہی خوف زدہ کردیا۔ میں نے اس کو ٹوکا نہ اس کی محویت کو توڑ ا، خود ہَکّا بَکّا پلٹ گئی۔ اس سے اگلی رات میں اپنے کمرے میں ہیڈ فون لگائے عابدہ پروین کی غزلیں سن رہی تھی کہ بیٹے صاحب لیپ ٹاپ اٹھائے کمرے میں داخل ہوئے۔

‘مما ضیاء الحق کون تھا؟ ‘ اس نے آتے ہی سوال داغا تو میں نے سٹپٹا کر اس کو دیکھا۔ وہ سراپا سوال تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ جواب کیا دوں؟ انگلیاں ہونٹوں پر رکھ کر اس کو تکنے لگی۔
‘مما؟ بتائیے ناں ضیاء الحق کون تھا؟ ‘ ملک کی سیاست کے حوالے سے پہلا ہی سوال وہ بھی اس قدر متنازعہ۔ مجھے لگا ضیاء الحق کی روح میرے کمرے میں پردے کے پیچھے کھڑی مجھے گھور تے ہوئے کہہ رہی ہے کہ سچ بتایا تو بہت برا ہوگا۔ مجھے جھرجھری آگئی۔ ایک طرف جمہوری اقدار کا سورج غروب کرنے والا ضیاء الحق تھا دوسری طرف اس قوم کا مستقبل میرے سامنے سراپا سوال تھا۔

میں نے ہمت باندھی۔ ماضی کے پَنوں سے گرد جھاڑتے ہوئے مستقبل کا سامنا کیا اور اپنے بیٹے سے ضیاء الحق کا تفصیلی تعارف کروایا۔ اس رات اس نے مجھ سے کئی اور سوالات بھی کیے۔ مثلاً بھٹو آستین کے کف کیوں نہیں بند کرتا تھا اور بے نظیر جب پاکستان سے چلی گئی تھی تو واپس کیوں آئی؟ اور ایسے ہی بہت سے سوالات۔ میں نہیں جانتی کہ اسے مطمئن کر بھی سکی یا نہیں بہرحال وہ تو اپنے کمرے میں جا کر سو گیا، لیکن میں نہ سو سکی۔

اس رات پہلی بار مجھے شدت سے اس کمی کا احساس ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی سیاسی تربیت کی کوئی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جاتی۔ مہنگے اسکول میں داخل کروائیے، اچھا سا ٹیوٹر لگوائیے، باقاعدگی سے سال گرہ منائیے، جھولے جھلائیے، تحفے دیجیے، ہوٹلنگ کروائیے، سال میں ایک بار ملکی یا غیرملکی دوروں پر لے جائیے، ان کا بچپن ہر طرح سے یادگار بنائیے اور بس۔ ملک کے سیاسی دھارے میں بچوں کی نمائندگی اور ان کے سیاسی شعور کی کبھی فکر ہی نہیں کی گئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ سیاسی عہدے ہمارے اور آپ کے بچوں کے لیے بنے ہی نہیں تو پھر ان کی تربیت پر وقت کیوں ضایع کیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر بچپن سے ہی سیاسی شعور پیدا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کام کیا جانے لگا تو سیاسی پارٹیوں کو اپنے خون سے پروان چڑھانے کے لیے وہ اندھے گونگے اور بہرے کارکن کہاں سے دست یاب ہوں گے جن کے بنا نہ جلسے جلوس ممکن ہیں اور نہ انتخابی ہنگامے۔

یہ سیاسی شعور کی تربیت کا فقدان ہی تو تھا کہ پاکستان کے ہزاروں نو عمر لڑکے اور نوجوان جنت کی لالچ میں کشمیر اور افغان جنگ میں جھونک دیے گئے۔ ایسے ہی نوجوانوں کے ہاتھوں کراچی کا امن رج کے تاراج کروایا گیا۔ اگر بچپن سے ہی گھروں میں بچوں کے سوالات کے شافی جوابات ملتے اور ان کی تربیت درست سمت پر ہوتی تو آج یہ ملک رُلنے سے اور ہزاروں گھر اجڑنے سے بچ جاتے۔ ماضی کو جانے دیجیے، حال کی بات کرلیں۔ کیا اس بار ہم سب نے پہلی بار سیاست میں غیرانسانی رویوں کی انتہا نہیں دیکھی؟ سیاسی دشمنی کے اندھے پن میں جانوروں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ گدھوں کو مارا گیا تو کتوں کے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر لٹکایا گیا۔ کسی جانور کو گولیاں ماردی گئیں تو کسی کو مخالف جماعت کے پرچم میں لپیٹ کر دریا میں پھینک دیا گیا۔ حتی کہ ڈیم کی سیاست پر بھی جانوروں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک سیاسی بے شعوری کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟

اگر بچپن سے ہی گھروں اور تعلیمی اداروں میں بچوں کے سیاسی شعور کی آب یاری کی جانے لگے، سوچوں کو مثبت سمت دکھانے کا رواج پنپنے لگے، اختلاف برداشت کرنے اور اپنے موقف کے لیے دلیل اور منطق کا سہارا لینے کی تربیت دی جانے لگے تو یہ جوان ہو کر نہ تو مخالفین پر گولیاں برسائیں گے اور نہ ڈنڈوں سے ایک دوسرے کے سر پھاڑیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی نے صرف ہمیں اور ہمارے رہن سہن کو ہی نہیں بدلا بلکہ ہمارے بچوں کو بھی بدل ڈالا ہے۔ اب بچے شعوری ارتقا کی منزلیں تیزی سے طے کر رہے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ آج کے بچے حساب کتاب میں ماہر ہوں، ٹیکنالوجی ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے، دنیا زمانے کی باتیں بنانے کے فن میں بڑوں بڑوں کو مات دے دیں لیکن سیاسی سمجھ بوجھ سے بے بہرہ ہی رہ جائیں۔

یقیناً ایسا ممکن نہیں بلکہ ہم صرف اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لیے بچوں کی سیاسی تربیت کو اہمیت نہیں دیتے۔ جس کے نتائج ہمیں اس وقت بھگتنے پڑتے ہیں جب یہ جوان ہو کر کسی بھی سیاسی اور مذہبی نظریے کے اندھے مقلد بن جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کہیں خودکش دھماکے ہوتے ہیں، کہیں بم پھٹتے ہیں اور کہیں گولیاں زندگی کا فیصلہ کرتی ہیں، کبھی یہ نوجوان غیروں کی جنگ لڑنے کے لیے ایکسپورٹ کردیے جاتے ہیں تو کبھی خانہ جنگی کرنے کے لیے امپورٹ کر لیے جاتے ہیں۔ اور پھر ہر ایک کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ جانے کیسے ہاتھوں میں ان نوجوانوں کی تربیت ہوئی ہے؟ لیکن جب ان کی تربیت کا وقت ہوتا ہے اس وقت ہم چین کی بانسری بجاتے ہیں اور سُکھ کی نیند سوتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).