بانو قدسیہ اور رجعت پسندی


اِس میں کوئی شک نہیں کہ بانو قدسیہ کے پاس ایک بھرپور اور مؤثر قلم تھا۔ ان کی تحریر میں روانی اور شگفتگی بھی بدرجہ اتم موجود تھی جبکہ تخیل، تانہ بانہ اور عمدہ کردار سازی ان کے فنِ تحریر کی نمایاں خوبیاں تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود اُن کی تحریروں میں غیر ضروری طور پر اپنی عِلمیت جھاڑنے کی خواہش بہت بُری طرح نظر آتی ہے۔ بلاوجہ ہر پیراگراف میں غیر معمولی اور ثقیل تشبیہات کا استعمال اُن کی تحریروں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ اپنی عالمانہ انا کی تسکین چاہتی تھیں۔

آپ ان کا کوئی بھی ناول یا افسانہ اُٹھا کر پڑھ لیں جرمنی سے بات شروع ہو گی اور یونانی دیو مالائی کرداروں تک جا پہنچے گی۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ تشبیہات تحریر کو زیادہ حسین اور پُرمغز بنا دیتی ہیں لیکن یہ بھی تو طے ہے کہ تشبیہ کا مقصد کسی خاص واقعہ یا شخصیت کو عام قاری تک اِس آسان انداز میں پہنچانا ہوتا ہے کہ اُس کو بیان کی گئی پوری بات کا ابلاغ ہو سکے۔ بھلا یہ کس طور مناسب ہوگا کہ روزمرہ کے کسی عام واقعہ کو بیان کرنے کے لیے فرانسیسی اور مصری تشبیہات کا ایک انبار لگا دیا جائے۔

ناول لکھنے کا مقصد عمدہ زبان میں قاری کے لیے تفریح کا موقع پیدا کرنا اور اس تک کوئی خاص اور معیاری پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ کبھی مقصود نہیں ہوتا کہ اسے ہیگل، کانٹ اور جبران کے فلسفوں کا ملغوبہ پڑھا کر اپنے علم کے رُعب میں مبتلا کردیا جائے۔ ایک صاحب کے بارے میں لکھتے ہوئے اُن کے خیال کی اُڑان ملاحظہ ہو۔

“میری اور اُن کی شخصیت کی رقمیں اس طرح نہیں لکھی جاسکتیں کہ اِن کے درمیان الجبرے کی برابر علامت آ سکے۔ ہم جب بھی اکٹھے ہوتے ہیں جیمز بانڈ سیریز کے ایجنٹوں کی طرح اُن کا چہرہ واٹرپروف رہتا ہے۔ وہ تِبت کے لاماؤں کی طرح علیحدگی اختیار کیے رہتے ہیں اور اُن سے ایسی برفیلی ہوائیں آتی رہتی ہیں جیسے پانچ ٹن کے ائرکنڈشنر سے یخ بستہ ہواؤں کا نزول ہو رہا ہو۔ وہ ولن ٹینو، فرینک جیرس اور رچرڈ برٹن کا ایک مِلا جُلا ہیولا بنے نظر آتے ہیں۔ ایک افواہ ایسی بھی سرگرم ہے جس کی رُو سے وہ شائی لاک ہیں۔ ان کا ناطہ رہزن انگریا سے ملتا ہے جس کے دبدبے سے پُرتگالی، ولندیزی اور انگریزی قزاق بھی پناہ مانگتے ہیں۔ اِس اعتبار سے وہ اصل میں مکرانی ہیں اور بجرے، ڈونگے اور موٹر بوٹ سے اُن کو ازلی مناسبت ہے”۔

کیا یہ تشبیہات کسی عام قاری کو مصنف کی سوچ کی درست تفہیم دے سکتی ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی بھی تشبیہ ایسی ہے جس سے عام قاری کا زندگی میں کبھی واسطہ پڑا ہو؟ ایسے پیراگرافس کی بھرمار مصنف کے اپنی علمیت جھاڑنے کے شوق کو تو پورا کر سکتی ہے مگر قاری کو اُلجھا کے رکھ دیتی ہے۔ وہ اِس چکر میں پڑ جاتا ہے کہ پہلے ممدوح شخصیت کو سمجھے یا اس سے پہلے پانچ چھ اور شخصیات کے بارے میں کماحقہ علم حاصل کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب کی لائنوں میں چھلانگیں مار کر پڑھنے کا نیا طریقہ سیکھ لیتا ہے اور یوں ادب کی بجائے وہ محض کہانی کا حظ ہی اُٹھا سکتا ہے۔

تحریر کی کجی اور خوبی سے قطع نظر میرے مضمون کا مقصد اُن عوامل اور اُن مقاصد پر بات کرنا ہے جس کے تحت بانو قدسیہ اور اُن کے شوہرِ نامدار نے اپنے قلم کا رخ موڑ کر ایک ایسے راستے پر ڈال دیا کہ جس کی منزل تو کبھی پائی ہی نہیں جا سکتی البتہ وہ راستہ بھی قاری کے لیے اوہام، اُلجھنوں اور خوف کی خاردار تاروں سے بھرا ہوا ہے۔

کسے معلوم نہیں کہ ترقی پسند تحریک کا راستہ روکنے کے لئے ایوب خان نے قدرت اللہ شہاب کے ذریعے رجعت پسند رائٹرز گِلڈ بنوائی تھی۔ قدرت اللہ شہاب بیوروکریٹ تھے۔ جب انھوں نے رائیٹرز گلڈ بنائی تو وہ اُس وقت ایوب خان کے سیکرٹری تھے۔ موصوف پر مارشل لاء اور سیاسی و ادبی جوڑ توڑ کے حوالے سے بھی کئی سکینڈل بنتے رہے۔ یہ وہی رائٹرز گِلڈ تھی جس کے بارے میں عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا۔

“ذہانت رو رہی ہے منہ چُھپائے
جہالت قہقہے برسا رہی ہے
ادب پر افسروں کا ہے تسلط
حکومت شاعری فرما رہی ہے”

اس گِلڈ نے اپنے قیام کے بعد ایسا ماورائے عقل ادب تخلیق کرایا کہ اردو زبان درباروں، خانقاہوں، فرضی معجزوں اور توہمات تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔ یہ وہی دور تھا جس میں اشفاق احمد اینڈ کمپنی نے اپنے قلم کی “سیاہی” کے ذریعے گمراہی اور فکری الجھنیں پیدا کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ترقی پسند ادب کی مخالفت کے ایجنڈے پر ادب کو مافوق الفطرت بابوں اور الف لیلوی داستانوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ یہ انھی کا بویا ہے جو ہم آج عمیرہ احمد اور نمیرہ احمد کے “مقدس عشق” پر مبنی ناولوں کی صورت میں کاٹ رہے ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ تحریر یا تخلیق کا مقصد اگر محض آمروں کی خوشنودی حاصل کرنا ہو یا آمروں کے مکتبہ فکر اور نظریات کو وسیع انسانی مفادات کے برعکس محض اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانا ہو یا پھر اپنے فن کے ذریعے گمراہی اور ذہنی الجھنیں پیدا کرنا ہو تو پھر ایسا فن بھی اور ایسی شخصیت بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

مرحومہ بانو قدسیہ کا کارٹون نیٹ ورک ناول راجہ گدھ کیا کم عجوبہ ہے۔ جس میں کالج کے لونڈوں کو متاثر کرنے کے لئے گھٹیا قسم کی جذباتیت، عشق میں ناکامی کے بعد (بابوں کے آئیڈیاز سے مستعار لی ہوئی) فضول قسم کی مستقل بینی اور درخت کے نیچے کے فحش اور فضول مناظر کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ منٹو کی تحریروں میں جنس ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنے والے یہاں اپنی آنکھیں بند کیوں کر لیتے ہیں؟

رجعت پسند ادب کے نام لیواؤں سے حکیم خادم صاحب کا یہ سوال تو جائز ہے کہ جو “ادب” ترقی پسند ہی نہ ہو تو اس کو ادبِ عالیہ کیسے کہا جائے؟ اور ایسا ادب جو قدرت اللہ شہاب جیسے بیورو کریٹوں کے دفتر میں بیٹھ کر وقت کے آمر کو خوش کرنے کے لئے تخلیق کیا جائے اُس کو انقلابی ادب کہنے کا حوصلہ کہاں سے لائیں؟

آخر میں عرض ہے کہ مردِ ابریشم لکھ کر بانو قدسیہ نے اور لبیک لکھ کر ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کے احسانوں کا بدلہ چکانے کی کوشش کی ہے۔ “عقیدت” میں کہے گئے بانو قدسیہ کے یہ الفاظ بھی ہمیشہ سوالیہ نشان رہیں گے کہ اشفاق احمد جس “بابا جی” کا اپنی تحریروں میں ذکر کیا کرتے تھے وہ یا تو واصف علی واصف تھے یا پھر قدرت اللہ شہاب۔

میرے خیال میں اِس ایک فقرے میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).