کھوئی ہوئی دنیا کی یاد


وہ صحن کب تھا، ایک دنیا تھی۔ ریلوے کالونی کے کوارٹر میں گیلری، قطار میں بنے تین کمرے، برآمدہ، اور پھر گھر کے مکینوں کے قد سے کچھ ہی اونچی دیواروں میں گھرا آنگن، ان دیواروں کی قامت بتاتی تھی کہ خوف اس بستی سے پرے رہتا ہے۔ دیواروں کے ساتھ بنی کیاریاں خوشبوؤں کا مسکن تھیں۔ آم، پپیتا، دن کا راجا، رات کی رانی، موتیا، گلاب، گیندا، سدا بہار۔ صحن کے کناروں پر رنگ ہی رنگ بکھرے تھے۔

سورج اس گھر کی چھت کو چھوتا ہوا ابھرتا، سنہری دھوپ منڈیروں پر اُترتی پھر سفیدی میں ڈھلتے ڈھلتے سارے آنگن کو اپنے رنگ میں رنگ دیتی۔ سورج اس صحن کے افُق پر یوں ٹھیرا رہتا جیسے اسی کے لیے نکلا ہے۔ پھر پہر بڑھنے اور سائے پھیلنے لگتے، سانولے سلونے مہرباں سائے منڈیروں سے بہتے پورے آنگن میں پھیل جاتے۔ شام اپنی ساری اُداسی صحن کے پیالے میں بھردیتی۔ اور پھر شام کا سُرمئی رنگ بڑھتے اندھیروں میں کھونے لگتا۔

رات کی کالی بدلیاں اُمڈ آتیں اور آنگن کے گگن پر چھا جاتیں۔ برآمدے کے وسط میں بنے ستون پر لگا بلب اپنی زرد روشنی تھامے اندھیرے سے لڑنے میں مصروف ہوجاتا۔ سوئچ بورڈ کے بٹن پر ہاتھ کی ایک جنبش ٹمٹاتی زردی کو واپس بلب میں سمیٹتی تو پتا چلتا کے اندھیرا تو تھا ہی نہیں۔ آنگن چاندنی سے یوں بھرا ہوتا کہ کرنیں چھلک کر برآمدے تک پہنچ رہی ہوتیں۔ چاند دن کے راجا کی پھنگ چوم رہا ہوتا اور آسمان پر دور تک تارے بچھے ہوتے۔ اتنے سارے تارے، اتنے اتنے اتنے کے دیکھنے کے لیے نظر کم پڑجاتی۔

چاندنی میں نہاتے آم کے پیڑ پر لَدا بور اور کھل اُٹھتا، موتیے اور گلاب کی خوشبوئیں پورے صحن میں لہریں مارتیں۔ آم کی ڈالیاں، دن کا راجا اور پھول بھری نازک شاخیں ہُوا کے جھولے پر جھولتیں۔ شریر ہوا عجیب کھیل کھیلتی، شاخوں، پھولوں، پتوں کو چھوکر اور سرگوشیاں کرکے جگائے رکھتی اور صحن کے پلنگوں پر لیٹے اس گھر کے مکینوں کو تھپک تھپک کر سُلا رہی ہوتی۔

صبح سے شام تک کتنے ہی پنکھ پکھیرو اس آنگن میں ڈیرا ڈالتے۔ کَوّے منڈیر پر آبیٹھتے، چڑیاں پورے صحن میں چہکتی پھرتیں، اِکّا دُکّا طوطے بھی آجاتے، کبھی کبھی کوئی کوئل بھی اپنی کوک آنگن کی فضا میں چھوڑ جاتی۔ تتلیاں اور بھنورے پھولوں پر منڈلاتے منڈلاتے ماحول سے اتنے مانوس ہوجاتے کہ سارے گھر میں پرواز کرتے پھرتے۔ رات کو صحن تاریکی کی چادر اوڑھتا تو جگنو اپنے ننھے مُنے جلتے بجھتے اُجالے سے اس چادر میں چھید ڈالنے آ دھمکتے۔ اور جب صحن کے اوپر چاند چمکتا تو چکور کے دیوانہ وار چکر آسمان پر دائرے کھینچنے لگتے، بہت دور سے آتی چکور اور پپیہے کی آوازیں آنگن میں سُر بکھیرنے لگتیں۔ شام کو شفاف نیلے آسمان پر اُڑتے سفید بگلوں کی ڈاریں بھی اس صحن کے کینوس پر روز بنتی جیتی جاگتی تصویروں میں شامل تھیں۔

کبھی سفید بادلوں کے گالے صحن پر تیرتے کبھی کالی گھنیری گھٹائیں آنگن کا کونا کونا ڈھک دیتیں۔ بارش ہوتی تو گلیوں کی ساری بھیگی مٹی کی مہک آنگن میں بسیرا کرلیتی، کیاریوں سے بھی مٹی کی سوندھی خوشبو اُٹھ رہی ہوتی۔ پیڑ پودے دُھل کر اُجلے ہوجاتے، سناٹے میں پتوں سے بہہ کر پتوں پر گرتے پانی کی ٹپ ٹپ اپنا برکھا سُر آنگن میں بکھیرتی۔
کبھی کسی فقیر کی صدا اس کی ہوا میں ڈولتی، کبھی سبزے والے، قلعی گر، ٹین ڈبے والے کی آوازیں خاموشی میں رقص کرتیں۔

یہ صحن مجھے پنچھیوں، پودوں، آسمان اور دھرتی ہی سے جوڑے ہوئے نہیں تھا، لوگوں سے بھی میرا ناتا باندھے ہوئے تھا۔ اگرچہ ”سرکاری طور پر‘‘ مہمانوں کے لیے ایک کمرہ مخصوص تھا، جسے صوفے کی جدت کے باعث ڈرائنگ روم کا نام دیا گیا تھا، لیکن اصل مہمان خانہ یہ آنگن ہی تھا، جہاں محلے کی خالائیں، باجیاں، بچے، اور کبھی کبھی گھر کے مردوں سمیت پورے پورے کنُبے آبیٹھتے۔ پاپڑوں کے ساتھ چائے کا دور چلتا، قصے، بحثیں، گپیں۔ باتیں ہی باتیں کہ یہ لوگ ملنے کے لیے ملتے تھے، کام کے لیے نہیں، اور مل بیٹھے رہنے کے لیے باتوں کے تار کھینچتے چلے جاتے تھے۔

پھر ایک روز اس گھر کے مکین دروازے پر تالا مار کر اسے چھوڑ گئے، بند گھر کا کُھلا صحن روکتا ہی رہ گیا، دیکھتا ہی رہ گیا، اور کہتا رہ گیا۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔ میں بھی اس خاندان کا حصہ تھا، سو اس قافلے میں شامل تھا۔ میرپورخاص کی ریلوے کالونی کی چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی سڑک سے شروع ہونا والا یہ سفر کراچی کی وسیع شاہراہوں پر ختم ہوا۔

آج میں فلیٹ میں رہتا ہوں، زمین سے دور آسمان سے بے گانہ، صحن نے میرا جو تعلق خدا کی کائنات، اس کے حُسن، رنگوں، منظروں اور آوازوں سے جوڑ رکھا تھا، وہ ٹوٹ گیا، چھوٹے ہوئے آنگن ہی میں چھوٹ گیا۔ کبھی اپنے فلیٹ کی کھڑکی سے جھانکتا ہوں، کبھی باہر نکل کر آسمان کی طرف نظر اٹھاتا ہوں، اور زمین پر آنکھیں گاڑتا ہوں تو سوچتا ہوں، اب اس ڈامر منڈھی زمین اور اونچی اونچی عمارتوں میں بے بسی سے پھنسے آسمان کے درمیان ہی جینا ہے۔ دھول دھوئیں سے اٹا آسمان، جس سے چاند تارے نوچ پھیکے گئے ہیں، اور پھوڑے پھنسیوں کی طرح اُگنے والے خوف کی دیواروں میں بند مکانوں اور فیلٹوں کا بوجھ اُٹھائے زمین، یہاں رہتے ہوئے اگر میرا صحن دل ودماغ میں نہ بسا ہوتا تو میں اتنا انسان بھی نہ ہوتا جتنا میں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).