خارجہ پالیسی: قصے کہانیوں کو چھوڑ کر حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے



اوسوالڈ سپنگلر کی کتاب Decline of the West نے پوری دنیا اور بالخصوص مغربی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا۔ بلکہ اس تہلکے کے آثار آج تک محسوس ہو رہے ہیں۔ تہذیبوں اور ممالک کی جہاں پر زوال کی وہ نشانیاں بیان کرتا ہے وہاں اس نے رومی جمہوریہ کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ” یہ مقولہ سیزر سے قبل تمام رومی تاریخ (250 ق م) مکمل طور پر جعلسازی ہے بالکل درست ہے۔ یہ سب موجودہ دور کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ کلاسیکی دنیا تاریخ کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتی تھی اس کا اندازہ سکندر کے دور سے سیاسی، روحانی تناظر کی رومانی داستان میں ملوث ہو جانے سے کیا جا سکتا ہے۔

داستان اور تاریخ میں فرق کا نمایاں ہونا رومی جمہوریہ کے زوال میں شروع ہوا۔ عوام نے شعوری طور پر آزاد ہو کر اساطیر اور دیوی دیوتاؤں کے انتخاب میں سوجھ بوجھ کا مظاہرہ شروع کیا۔ مذہب کا وجود برائے نام رہ گیا اور گوئٹے اور نٹشے کے مطابق اس دور کے رومی معاشرت کا مذہب مروجہ ادب کی پیداوار ہے”۔ بدقسمتی سے رومی زوال کی یہ نشانی وطن عزیز میں آج بھی پوری طرح جلوہ فگن ہے۔ بالخصوص خارجہ معاملات میں ہماری توقعات داستانوں کے فرضی ہیروؤں کی مانند ہے۔ حالانکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی یہ تصور دے دیا گیا تھا کہ ہمیں بچانے کوئی اور آئے گا اور اب میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں یہ تصور کہ ہم فلانے کی اس طرح کی ضرورت ہیں اور ڈھمکانے کی اس طرح کی ضرورت ہیں۔ یہ سوچ ایسی مضبوط کر دی گئی ہے کہ جیسے رومی زوال کے زمانے میں داستان گوئی کو حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

پاکستان نے گزشتہ حکومت کے زمانے میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی معاہدہ سی پیک کی صورت میں کیا جو بجا طور پر قابل تحسین بھی ہے۔ سی پیک اس وقت اتنا موضوع بحث ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے ڈین آف آرٹس ڈاکٹر اقبال چاولہ اور ڈاکٹر امجد مکسی نے چینی سکالرز کے ہمراہ ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کروایا کہ جس میں راقم الحروف نے اپنی گذارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بالخصوص امریکہ اس معاہدے کے اثرات کو نہ صرف کہ چین کے حوالے سے تجزیہ کر رہا ہے بلکہ پاکستان کے کردار کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور یہ معاہدہ کرنے پر وہاں ایک ناراضگی بھی موجود ہے۔ اور اس ناراضگی کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک تو اس منصوبے پر دستخط کرنے کے سیاسی اثرات سابقہ حکومت کے لئے قائم ہوئے جو بالکل واضح طور پر موجود نظر بھی آ رہے ہیں۔ دوئم اس سے پاکستان کی امریکہ کی ریاست سے جس سطح پر تعلقات ہیں وہ مزید گھمبیر ہو رہے ہیں۔ جو پہلے ہی شک و شبہ کے زیر سایہ چل رہے تھے۔ پاکستان کی نوزائیدہ حکومت سے معاملات کرنے کے حوالے سے ویسے ہی بین الاقوامی دنیا شش و پنج کا شکار ہے کہ ان سے معاملات کو طے کرنے سے کیا معاملات طے ہو سکیں گے یا پاکستان میں طاقت کے اصل مرکز سے ہی معاملات کو رکھنا مناسب ہو گا۔

اس سلسلے میں بہت واضح طور پر امریکہ کا بیان سامنے آیا کہ جب مائیک پومپیو پاکستان آ رہے تھے تو پینٹا گون نے بیان دیا کہ پاکستان کی فوج سے روابط جنوری سے برقرار ہیں۔ اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ امریکی حکومت در حقیقت کس طرف اب دیکھ رہی ہے۔ افغانستان کا مسئلہ امریکہ کے نزدیک ایک ایسا معاملہ ہے جو اب سی پیک میں ہونے والی بتدریج اقدامات سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ سے تلخ تعلقات اس وقت ایک حقیقت بن چکے ہیں اب دوسرا معاملہ چین سے مربوط ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک سی پیک اس انداز میں رواں دواں تھا کہ پاک چین تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا جا رہا تھا۔ مگر چین کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورے سے قبل ہی نوزائیدہ حکومت کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے کہ جس سے یہ محسوس ہونے لگا کہ سی پیک کا معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ پاکستان میں موجود سیاسی خلفشار کا نشانہ بن سکتا ہے۔ ایک تصور یہ ہے کہ چین کے وزیر خارجہ اپنے دور پاکستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مقصد صرف ایک ہی محسوس ہوتا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے ہر قسم کا خدشہ برطرف ہو جائے مگر رزاق داؤد کے ایک برطانوی اخبار کو دیئے گئے مبینہ انٹرویو میں یہ واضح کر دیا کہ سب اچھا نہیں ہے۔ اور دوستوں میں جب تب اچھا نہ ہو تو ایسی صورت میں برا نتیجہ سامنے آنے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

امریکہ سے تعلقات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ تصور کرنا کہ چین سے بھی معاملات گزشتہ حکومت کی سطح پر نہیں رہیں گے ایک سوہان روح تصور بن جاتا ہے۔ جب چین سے تعلقات کا ذکر امریکہ کے پہلو بہ پہلو کیا جا رہا ہے تو اس سے یہ تصور اخذ کر لینا درست نہیں ہو گا کہ میں چین کے ساتھ مل کر کسی بلاک میں جو امریکہ مخالف ہو شامل ہونے کا تصور پیش کر رہا ہوں۔ کیونکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس نوعیت کے بلاکوں کی سیاست ماضی بن چکی ہے۔ ویسے بھی اس بلاک میں ایک دوسرا طاقتور امریکہ مخالف ملک روس کو سمجھا جاتا ہے اور روس کے پاکستان سے تعلقات کی اس وقت یہ حالت ہے کہ صدر پیوٹن نے جو وہاں پر ہر کام کے کرتا دھرتا ہیں نے عمران خان یا ڈاکٹر عارف علوی کو مبارک باد تک دینا پسند نہیں کیا۔ ان حالات میں بلاکوں والی باتیں کرنا یا کسی کے خلاف یا کسی کی حمایت میں محاذ قائم کرنے اور اس کا حصہ بننے کی باتیں صرف وہ لوگ ہی کر سکتے ہیں جو داستان گوئی سے مجمع اکٹھا کرنے کا کام کر رہے ہوں۔ ایسی داستانیں سنانے والے اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بالفرض ایسا کوئی محاذ قائم ہو بھی جائے تو اس صورت میں صرف ایک طرف پلڑا جھکانے سے وہی نتائج نکلیں گے جو امریکہ اور سوویت یونین کے تصادم میں نکلے تھے۔

اس وقت بھی یہ صورتحال ہے کہ امریکہ اور چین دنیا کی ان دو بڑی طاقتوں کے مفادات کا ٹکراؤ پاکستان کی سر زمین پر ہو رہا ہے۔ اور ہم ابھی تک دو برادر اسلامی ممالک کے پاکستانی سر زمین پر ٹکراؤ ان کے پراکسیوں کو قائم کرنے اور اس کے نتائج کو ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ دونوں بڑی طاقتیں بھی اپنے مفادات بچانے کے لئے کسی مقابلے کی فضاء میں پاکستان میں اتر گئی تو نئی قسم کی پراکسیاں دیکھنے کو ملیں گی جو زیادہ نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ پاکستان میں موجود حقیقی فیصلہ ساز قوت کو سی پیک اور اس حوالے سے پالیسی سازی کرتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ ہم کسی کی بھی مخالفت کو اپنے مفاد میں نہیں پاتے اور مشرکات پر لا کر اختلافات کے برے نتائج سے بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ صرف عظمت کے قصے داستان میں ہوں گے۔ داستان گوئی سے حقیقت بدل سکتی ہے اور نہ اس کی تلخی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).