شادی کے بعد بھی کنوارے جوڑے: طبی نقطہ نظر


جنسی ملاپ، مرد اور عورت کے درمیان قربت کی انتہا ہے۔ اگر یہ تعلق جذباتی تعلق کے نتیجے میں قائم ہو تو ہم اسے قربت کی معراج کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ تعلق اگر جذباتی تعلق کے بغیر جبر سے بنایا جائے تو یہ جنسی استحصال کہلائے گا۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان تعلق کے بہت سے خوبصورت اور قبیح درجے آتے ہیں۔ شادی کے نتیجے میں بننے والے جسمانی تعلق میں ان سارے درجوں میں سے کوئی بھی درجہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ شادی میں بنیادی اہمیت بہر حال جنسی تعلق ہی کی ہوتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ تعلق نہ بن سکے تو محبت کی شادیاں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس کے بر عکس اگر شادی کے وقت میاں بیوی میں کوئی جذباتی تعلق پہلے سے موجود نہ بھی ہو تو جنسی تعلق قائم ہونے کے بعد اکثر اوقات اُنسیت کا رشتہ بھی دھیرے دھیرے استوار ہونے لگتا ہے۔

ہمارے یہاں اکثر لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ میاں بیوی پہلی ہی رات یہ تعلق قائم کر لیں گے۔ اسی وجہ سے ولیمہ کے دن قریبی لوگ عورت اور مرد دونوں سے کسی نہ کسی ڈھنگ سے اس بارے میں استفسار ضرور کرتے ہیں۔ اور جواب اگر نفی میں ملے تو اسے مرد کی مردانگی پر ایک سوالیہ نشان سمجھ کر اُسکا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ کہ بہت سی شادیوں میں یہ تعلق پہلی رات کو قائم نہیں ہوپاتا، لیکن سُبکی سے بچنے کے لئے زیادہ تر لوگ اس بارے میں جھوٹ بول کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیشتر معاملوں میں چند دن یا چند ہفتوں میں جوڑوں کو اس سلسلے میں کامیابی مل جاتی ہے، اور زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگتی ہے۔

لیکن کئی دفعہ ایسا نہیں بھی ہوتا، اور طویل عرصے تک جوڑے اکٹھے رہنے کے باوجود کنوارے ہی رہتے ہیں۔ اگر بات کھل جائے تو کئی شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں، لیکن بعض اوقات عورتیں بھی رازداری برتنے میں شامل ہو جاتی ہیں اور شادی کے بعد کنوارپن کا یہ عرصہ حیرت انگیز طور پر طویل ہو کر سالوں تک چلا جاتا ہے، لیکن شرم کے باعث لوگ ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے، اور وقت کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کے تعلق میں نفسیاتی اور سماجی مشکلات بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ راقم نے ایک ایسا جوڑا بھی دیکھا جو شادی کے گیارہ سال بعد بھی جنسی تعلق قائم نہیں کر سکا تھا، جبکہ ایک دوست ڈاکٹر کے مشاہدے میں سولہ سال لمبا کیس بھی آ چکا ہے۔

اس سلسلے میں ظاہر ہے کہ سب سے اہم سوال یہی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اور اس کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ تو آئیے سب سے پہلے اس کی مردانہ وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے عام وجہ نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے۔ یعنی مرد میں کوئی جسمانی نقص نہیں ہوتا لیکن شرم اور جنسی تعلق کو برائی خیال کرنے کی معاشرتی یا مذہبی تربیت کے باعث، عورت کی قربت میں وہ سختی کھو دیتا ہے۔ اس کے علاوہ پہلی ہی رات ایک اجنبی عورت کے اتنے قریب ہونے کی جھجک بھی ہو سکتی ہے، جسے کئی حالتوں میں آپ پہلے سے جانتے بھی نہیں تھے۔ اس دباؤ کے ساتھ ناکامی کا دباؤ بھی شامل ہو کر مسئلے کو زیادہ شدید بنا دیتا ہے۔ ایسی ”بے ضرر“ ناکامی کی سب سے بڑی پہچان یہ کہ مذکورہ شخص جب خلوت میں نہیں ہوتا، تو جنسی خیالات کے وقت اور نیند کے دوران اُسے بالکل ٹھیک سختی آتی ہے لیکن عورت کے قریب ہوتے ہیں، یہ سختی ختم ہو جاتی ہے۔

ایسی صورت میں کئی دفعہ تو تسلی ہی کافی ہوتی ہے، لیکن تسلی کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ مرد فوری کار کردگی دکھانے کی بجائے دانستہ طور پر سُست روی سے قربت کو بڑھائے اور کئی دنوں کے بعد جب ججھک دور ہوجائے تو جنسی عمل کو خود بخود ہونے کا موقع دے۔ اگر عورت سے بات کرکے اُسکا تعاون بھی حاصل کیا جا سکے تو مزید فائدہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ زیادہ تر صورتوں میں کارگر ثابت ہوتا ہے، اور کسی دوا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ بہتر ہے کہ کوئی دوا استعمال نہ کی جائے۔

نفسیاتی مسائل کئی دفعہ زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ مثلاً کئی مرد کُچھ عورتوں کے ساتھ تو کامیاب رہتے ہیں لیکن کسی مخصوص عورت (مثلاً بیوی) کے ساتھ کامیابی حاصل نہیں کرپاتے۔ ایسی صورت میں ماہر نفسیات کی مدد لی جا سکتی ہے اور کوئی وجہ نہ ملنے یا ناکامی کی صورت میں سختی پیدا کرنے والی کسی دوا کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے۔ نفسیاتی اور جذباتی مسائل میں سب سے مشکل صورت اُس وقت پیش آتی ہے، جب بنیادی مسئلہ مرد میں سختی کا نہیں بلکہ رغبت اور جنسی رجحاں کا ہوتا ہے۔ اگر مرد میں جنسی رغبت ہی کم ہے، تو یہ معاملہ نفسیاتی بھی ہو سکتا ہے، اور جسمانی بھی۔ اس کی تشخیص کے لئے کسی جنسی امراض کے ماہر سے رجوع کرنا پڑے گا، جو پاکستان میں اُنگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

جنسی رغبت کم ہونے کی ایک خصوصی وجہ ہم جنسی رجحان بھی ہو سکتا ہے۔ ہم جنسی رجحان رکھنے والے مردوں میں عورت اور مرد دونوں کے لئے رغبت بھی ہو سکتی ہے اور صرف مردوں کے لئے بھی۔ جو مرد صرف مردوں کے لئے جنسی رجحان رکھتے ہیں، اُنکا رجحان اگر نفسیاتی علاج سے بدلا نہ جا سکے تو عورت کو ساری زنگی برباد کرنے کی بجائے، اپنا راستہ تبدیل کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ضرور چاہیے

نوجوان مردوں میں جسمانی امراض کی وجہ سے مردانہ کمزوری بہت کم دیکھنے میں آتی ہے(اگرچہ نسبتاً بڑی عمر کے مردوں میں یہ تناسب زیادہ ہوتا ہے)۔ ایسے مردون کو شہوانی خیالات اور نیند کے دوران بھی سختی یا تو بالکل نہیں آتی، یا کم آتی ہے۔ ان کا بھی علاج ممکن ہے، جس کے بارے میں راقم کا ایک تفصیلی مضمون پہلے ہی شائع ہو چکا ہے۔

جنسی تعلق قائم نہ ہوسکنے کی نسوانی وجوہات بہت کم ہیں جو شاذ ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عورت چونکہ ایک مفعول کی طرح بھی اس عمل میں شریک ہو سکتی ہے، اس لئے اس کی رغبت، خواہش، آمادگی اور تحریک کے بغیر بھی مرد یکطرفہ طور پر یہ عمل انجام دے سکتا ہے۔ اس لئے عورت کی طرف سے اس تعلق میں ناکامی کا سامنا عموماً اُسی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے جب جنسی راستے میں کسی قسم کی باقاعدہ رکاوٹ موجود ہو۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

ایک تو پردہ بکارت کا معمول سے زیادہ موٹا اور سخت ہونا، جسے ایک معمولی آپریشن کے ذریعے چاک کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسے میں دوسری بڑی وجہ جنسی تشنج ہے جس میں داخل ہونے کی کوشش پر یا کئی دفعہ مرد کا ہاتھ لگتے ہی، زنانہ راستے، اور اُس کے ارد گرد کےپٹھے تشنج کی صورت میں اکڑ جاتے اور شدید درد کے ساتھ راستہ بند ہو جاتا ہے۔ یہ تشنج لا شعوری طور پر ہوتا ہے اور عورت کی اس میں کوئی شعوری غلطی شامل نہیں ہوتی۔ اس کی وجوہات نفسیاتی بھی ہو سکتی ہیں اور جسمانی بھی، اور دونوں سطحوں پر اس کا علاج کرنا پڑتا ہے، جو کہ بیشتر صورتوں میں موثر ثابت ہوتا ہے۔

آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں شادی کے بعد ازدواجی تعلق میں ناکامی اکثر معمولی وجوہات کے باعث ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی شدید جسمانی مرض ہو تو بیشتر صورتوں میں اس کا علاج بھی ممکن ہوتا ہے۔ علاج میں کامیابی کے امکانات اُس وقت بڑھ جاتے ہیں، جب دونوں پارٹنر مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور معالج کے پاس بھی اکٹھے ہی جائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے نو بیاہتا جوڑے کو اگر ہفتے دس دِن میں کوشش کے باوجود کامیابی نہیں ہوتی، تو انہیں معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).