ڈاکٹر علی شریعتی


ان کے خیال میں اسلام دینِ فطرت ناطہ مستقل و دائت ہے، وہ مذہبی انجماد کے بجائے قوتِ اجتہاد کے قائل تھے۔ ان کی نظر میں ادب و فن انسان کے تخلیقی اظہار کی شکلیں ہیں اور مذہب سے پیوستہ کہ جن سے رابطہ ٹوٹنے کی وجہ سے مذہب کو بیزار کن الفاظ کا مجموعہ بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ حضرت حسان بن ثابتؓ اور حضرت زبیر ؓنے کس طرح شعر و ادب کو اہلِ قریش کے خلاف بطور تلوار استعمال کیا۔

علامہ اقبال کے افکار سے ڈاکٹر علی شریعتی کو خاص عقیدت تھی۔ دونوں کے خیالات میں ازحد مماثلت بھی تھی۔ ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں ’ اسلام جاھلوں اور رضاکاروں کے ہاتھوں میں آ کر اپنی راہ سے ہٹ چکا ہے۔ اس لئے اس قسم کا مذہب، اربابِ اختیار کے ہاتھوں میں عوام الناس کے استحصال کا ہتھیار ہے۔ ‘ کم و بیش ایسے ہی خیالات کی عکاسی علامہ اقبال کے اس شعر میں ہوتی ہے۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی

ڈاکٹر شریعتی جس فکری انقلاب کے خواہاں تھے وہ فکر آج بھی ان کے اقوال کی صورت شعورِ انسانی کو بیدار کرنے کے لئے مہمیز لگاتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
1۔ وہ لوگ جو انسان کی حقیقت سمجھے بغیر انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ ان کی مثال ایک ایسے مالی کی سی ہے جو باغبانی کا فن تو جانتا ہے مگر جن درختوں کی وہ نگہداشت کر رہا ہے ان کی انواع سے ناواقف ہے اور یہ بات بھی نہیں سمجھتا کہ اس کے معاشرے میں لوگوں کو کس طرح کے پھلوں کی ضرورت ہے۔

2۔ انسان کی شان : دراصل انسان وہ ہے جس کی اپنی خودی ہو، جس کا اپنا تشخص اور انفرادیت ہو۔ جو ”میں ‘‘ کہہ سکے، جو یہ کہہ سکے کہ میں نے یہ انتخاب کیا اور میرے اس انتخاب کی بنیاد یہ دلائل ہیں اور پھر وہ اپنے ارادہ اوراختیار سے دلائل اور براہین کی روشنی میں اپنے لئے کسی شے کو منتخب کرے۔ انسان ہونے کی یہی شان ہے۔

3۔ ہماری گھریلو عورتیں جو تمام عمر کام کرتی ہیں، ان کی نوعیت ایک ملازم اور ایک دایہ کے کام سے کسی طرح مختلف نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ انہیں اس کے علاوہ کسی اور کام کی تربیت نہیں دی گئی۔ وہ علم و شعور سے بے بہرہ ہیں، ایسی عورتیں کس طرح سے آئندہ نسل کی تربیت و تعلیم کے فرائض کو انجام دے سکتی ہیں۔

4۔ ہنر برائے ہنر، علم برائے علم، شعر برائے شعر ایک فریب کارانہ پوشاک ہے، جس سے بے روح دانشور، بے پیغام مفکر اور بے مقصد شاعر کی زندہ لاشوں کو ڈھکا جاتا ہے۔ اور ایک گمراہ کن بہروپ ہے جسے دھار کر انسانی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے مجرمانہ فرارکی امکانات جوئی کی جاتی ہے۔

5۔ آج جس انداز سے امامِ حسین علیہ السلام کو پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر شمرابن ذالجوشن، سنان ابن انس یا عمر ابنِ سعد آ جائیں تو نہ صرف وہ آج کے(پیش کردہ ) اس ” حسین ؑ ‘‘کو پہچاننے سے انکار کر دیں، شاید اعتراض بھی کر بیٹھیں اور کہیں کہ اگرحسین علیہ السلام ایسے ہی ہوتے تو ان کو قتل کرنے کی دلیل ہی کیا تھی؟ بلا شبہ حسین ؑ کی معرفت کے باب میں شمر، سنان اور ابنِ سعد آج کے اُن افراد سے زیادہ آگے ہیں جو حسین علیہ السلام کے نام لیوا ہیں۔

عظیم عالم شہید مطہری نے کہیں لکھا ہے کہ شہادت آج تک انتقال ِ خون کا عمل ہے۔ جب کوئی معاشرہ مرنے لگتا ہے تو شہید کا خون اسے دوبارہ زندگی عطا کرتا ہے۔ ’ ڈاکٹر علی شریعتی نے معاشرے کو زندگی دینے کی سعی میں جان کا نذرانہ دے کر حیات کو ہمیشہ کے لیے اپنا لیا۔ ان کو ختم کرنے والے آج بے توقیر و بے نام و نشان ہیں لیکن جہان میں ڈاکٹر شریعتی کے افکار کا سورج تا ابد جگمگاتا رہے گا۔
۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی کتاب ’ علی شریعتی اقبال شریعتی ’ اور انٹرنیٹ سے استفادہ حاصل کیا گیا۔ (مصنفہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2