اور دریا اپنا کورس بدلتا ہے


کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وقت کو کسی بند گلی میں جا لوں اور اس پہ وہ سبھی سوالات داغ دوں، جن کا ہمارے عہد کا انسان تاحال تسلی بخش جواب دینے سے رہا۔ شاید اس بند گلی میں اس کو فرار کا موقع میسر نہ ہو، شاید وہ بھی کہیں تھک ہار کے رک جائے۔ سب سے اول تو ا۔ س سے اس نام پوچھوں، وہ نام جس سے وہ خود کو پہچانتا ہے؛جو اس کیجزئیات اور شخصیت کا اعادہ کرتا ہو۔ وقت تو ہم انسانوں کی اک ڈیفائن کردہ تخلیق ہے اور تخلیق میں دلائل کو تار تار کیے جانے کا روشن امکان موجود ہوتا ہے۔

ابھی جو میں اس کے بارے میں خیال آفرینی کر رہا ہوں، کیا وہ بھی میرا شعور رکھتا ہے یا کسی بہتے دریا کی مانند فلک بوس برفابوں سے بہتا ہوا کسی سمندر میں کھو جاتا ہے؟ یا اگر اسے کسی دریا سے تمثیل باندھ ہی لی جائے تو یہ کس سمندر کو لپکتا ہے؛ وہ کیا عالمگیر شے ہے کہ جس میں یہ گم ہوتا چلا جاتا ہے؟ مثلا اگر ہم مان لیں کے جو دریا بہتا ہوا سمندر میں ضم ہو گیا، وہ ابھی ماضی کا حصہ بن چکا ہے؛تو یہ حال کہاں سے آموجود ہوتا ہے؟ ہم مانتے ہیں کہ پانی اک سائیکل میں گھومتا ہوا پھر سے لوٹ آتا ہے؛بادلوں سے پہاڑیوں، چٹانوں سے ندی نالوں، نہروں سے بہتے جھرنوں اور دریاؤں میں ملتا جلتا اک وسیع اور پھیلے دریا کی صورت سمندر میں گم ہو جاتا ہے۔ آپ اگر اس نکتہ پہ غور کریں کہ جب دریا اونچائی سے میدانی علاقوں میں اترتا ہے تو کسی باز کی طرح پھن پھیلاتا چلا جاتا ہے؛اسکے کنارے پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

اعادہ کرنے کے معنوں میں مزکورہ بالا چال بہت سے عنوانات کے تار چھیڑتی چلی جاتی ہے۔ وقت کا اک عنوان انسان کی زندگی سے بلاواسطہ آملتا ہے۔ پہاڑی تیز و تند نالوں کی صورت یعنی لڑکپن سے پہنچے سے پہلے پہلے وہ کئی بکھرے بکھرے چشموں کی صورت آ نمایاں ہوتا ہے۔ بالکل کسی نومولود بچے کی طرح، کہیں میٹھا، کہیں ترش تو کہیں ابلا ہوا۔ شاید وہی خوبیاں بھی اک انسان کے اولین سالوں میں پل رہی ہوتی ہیں۔ ابھی اس انسان کے نین و نقش واضح نہیں ہوتے، وقت کے کسی کنارے سے وہ ہنستا کھلکھلاتا ہوا جھرنا معلوم ہوتا ہے؛جہاں چڑیاں اور پرندے اس کے ساتھ شاملِ سفر خوشیاں بکھیرتے ہیں۔ مگر ٹھہریں تو کیا وہ اپنا بہاؤ اور اپنا مزاج خود واضع کرتا ہے یا وہ حالات و واقعات کی لے میں بہتا ہوا مروجہ اطوار کے عین مطابق خود کو ڈھالتا چلا جاتا ہے۔ یہیں یہ سوال آ کھٹکتا ہے کہ اگر اک پرسکون بہتا ہوا پانی اچانک کسی اونچائی پہ آکر رک جائے اور گہری کھائی میں اترنے سے انکاری ہو تو کیا اس کا بہاؤ مسلسل رہ پائے گا؟ کیا وہ ویسا ہی رہ پائے گا کہ جیسا پہلے تھا یا کے بدلی آشکارہوگی؟ زمینی حقائق اسے اونچائی سے تیز و تندہی سے بہنے پہ مجبور کیے جاتے ہیں۔ پھر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان بھی وقت کی زمین پہ حادثات میں بندھا اک مہرا ہے؛جسے اس کے ریکارڈشدہ نقشے پہ چلتے جانا ہے۔ وہ اپنی راہ میں دیا گیا آسان رستہ منتخب کرتا چلا جاتا ہے۔ آسان اور مختصر، ہاں اک وحدت بھرے خیال پہ مرکوز۔

چلیں فرائیڈ کی بPsychodynamic Theory کے سپر ایگو کے نکتہ کو مان لیتے ہیں کہ اک نومولود اپنے والدین اور ماحول کی دین ہے تو کیا اس کے پاس کسی بھی طرح کی آزادی نہیں ہے؟ وہ اس غلام گردش کو سمجھے بنا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ سبھی دریا جو اک ہی کورس پہ پلتے، بڑھتے اورآگے ٹھاٹھیں مارتے گم ہو جاتے ہیں؛یہ عام سے لوگ ہیں اور ان کی تعداد وقت کی زمین پہ اکثر سے بھی بیشتر پائی جاتی ہے۔ تو آئیں ان چند اور خاص دریاؤں کے بہاؤ کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں جو بقیہ سے مختلف ہوئے؛ایسا کیا ہے کہ وہ ہجوم سے ہٹ کے چلے؛اکیلے، تنہا اور اپنی موج میں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ دریاؤں کا رخ ان سے آملے واقعات و حادثات کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔

الزبتھ بورمین اپنے اک ریسرچ آرٹیکل میں حوالہ دیتی ہیں کہ دریاؤں کے رخ میں تبدیلی کی کئی وجوہات میں سے چند انسانوں کی اپنی تیارکردہ ہیں تو کچھ زمینی کیفیات اور کچھ قدرتی حادثات کی وجہ سے نموندار ہوتی ہیں۔ مزید برآں، کہا جاتا ہے کہ دریا کے دو کنارے اک دوسرے سے قدرے مخلتف ہوتے ہیں؛اک کنارے پہ پانی کے بہاؤ کا پریشر زیادہ ہوتا ہے تو دوسرے کنارے پہ دھیما پایا جاتا ہے اور اسی سبب اکثر دریا کا اک کنارہ تیز تو دوسرا دھیرے سے بہتا چلا جاتا ہے۔ یونہی ہم انسانوں کی شخصیات کی تخلیق میں اک طرف کا رحجان زیادہ ڈگری پہ تو دوسری اور بہت کم پایا جاتا ہے۔ اسے ایسے سمجھ لیں کہ کسی انسان کو کتابوں سے گہرا شغف ہے مگر کمپیوٹر پروگرامننگ سے کہیں بیزار بیزار سا نظر آتا ہے۔ زمینی ماہرین کے مطابق دریا کے تیز پریشر والے کنارے پہ اگر بند یا کسی بھی طرح کی رکاوٹ کا انتظام نہ کیا جائے تو وہاں کی مٹی ہولے سے سرکتی چلی جاتی ہے اور اس کنارے کا پاٹ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے حجم بڑھتا ہے تو نتیجہ کے طور پہ پانی کا بہاؤ دوسری جانب کم اور سست پڑتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہوتا ہے کہ جب اک انسان اپنے تمام تر نقوش سے اپنی شخصیت کو کھرید کر اپنے رخ کا تعین کر سکتا ہے۔ وہ اب اک عام انسان سے ہٹ کر کوئی فنکار یا آرٹسٹ بن جاتا ہے۔ یہ عام انسان کے بعد کی دوسری ڈگری کئی جا سکتی ہے۔ اس عام سے اوپر کے درجے کے انسان کا زوایہ مختلف مگر واضع ہوتا ہے۔ وہ اب پھیلا ہوا زیادہ سے زیادہ رحجانات کا شکار ہوئے بنا اک خاص نکتے پہ اپنا پلان آف ایکشن مرتب کر سکتا ہے۔

لیکن خاطر جمع رکھیں؛ کیوں کہ ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ جڑے دریاؤں میں کئی ایسے بھی انسان نظر آتے ہیں جو اک ہی طور سے چلتے چلتے یکدم بہت نمایاں اور حیران کن تبدیلی سے ابھرتے ہیں۔ وہ عام سے زاویہ کی تبدیلی کی بجائے گہرا اور کماحقہ طریقہ سے شخصیات میں تبدیلی لاتے ہیں۔ مثلا مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے شہر میں اک صاحب دن بھر کی مشقت کے بعد مسجد میں اکثر مغرب کی اذان کہنے پہنچ جایا کرتے تھے۔ گہری سبز اور پھیلی ہوئی داڑھی، آنکھوں کے کنارے اور ماتھے کی لکیریں زندگی کی جفاکشی اور اک مشکل پسند انسان کی نشاندہی کرتی تھیں۔ پر جب وہ ازان کہتے اور حی علی الفلاح کی صدا بلند کرتے تو عجیب دل نرم کر دینے والی اور میٹھے پانی کے جیسے علی الاعلان کہتے چلے جاتے۔ پھر اک دن اک قریبی دوست نے انکشاف کیا کہ موصوف کسی زمانے میں دین سے دور اور شراب کی مانے ہوئے ڈیلر ہوا کرتے تھے۔ میں آج بھی ان کی لائف کا ٹرننگ پوائنٹ نہیں تلاش سکا مگر اس بات پہ مکمل یقین ہے کہ وہ اپنے ماضی سے حال تک پہنچتے پہنچتے 180کی ڈگری سے بدلے ہیں۔ کیا وہ بھی کسی حادثہ یا کسی زمینی یا وقت کی تہہ میں اک کنارے سے دوسرے کنارے کی جانب پھسلتے چلے گئے؟ اک مثال اور لیں کہ میرے گاؤں(بالاکوٹ، ہزارہ ڈوژن) میں بہتا ہوا دریائے کنارے کسی زمانے میں مشرقی کنارے پہ زیادہ زور سے مسافت طے کرتا جب کے مغربی کنارے سے سستی کے ساتھ بہتا۔ پھر اونچے پربتوں سے گلیشیئر غیر معمولی طور پہ پگھلنا شروع ہوئے اور کچھ دنوں کی بارشوں کے بعد اک سیلاب(92ء) نے ہمارے گاؤں کو آ دبوچا؛ طوفان تو خیر آیا اور چل دیا مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا۔ انہی میں سے اک دریا کا کورس بدلنا تھا؛اس کورس کو بدلنے میں اس نے اک برج کو، اک تھانے اور مسجد کو اپنے ساتھ لیا تھا۔ چونکہ مسجد اور تھانہ اک ہی کنارے پہ مگر کچی زمین پہ تعمیر کیے گئے تھے۔ اسی سبب اب دریا مغرب کی جانب زیادہ سفاکی سے بڑھتا ہے مگر مشرق میں اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ تو کیا ہم اس سیاق میں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ماضی کے سرد اور جمعود زدہ گلیشئر بھی کبھی پگھل پڑتے ہیں اور ہمیں اپنی اک مختلف شخصیت سے ہمکنار کرتے ہیں، شخصیت کے ان کمزور کناروں سے جہاں ہمیں ہماری اپنی دسترس میسر نہیں ہوتی؟

مگر ہاں، ان خیالات کے تصادم سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا ماضی ہمارے حال پہ گہرا اثر رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا اور اسی سبب ہم اپنے مستقبل کو عمومی دھارا سے کہیں پرے جانچ سکتے ہیں۔ وہ دھارا جو ہمارے ساتھ بہتے عام دریاؤں سے سے ہٹ کر مخلتف الجہت اور انقلابی واقع ہو سکتی ہے۔ وہ دھارا جو وقت کی زمین کو از سرِ نو تشکیل اور ری ڈیفائن کرنے پہ مجبور کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).