انسانی جسم میں موجود عناصر کی قیمت کتنی ہے


کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ زندگی، زندگی نہیں بلکہ ایک خواب ہے۔ ہماری اصل زندگی ولادت سے پہلے کہیں سرگرم عمل تھی اور مرنے کے بعد پھر مصروفِ عمل ہو جائے گی۔ جس طرح ایک مسافر کو جاتے جاتے نیند آ جاتی ہے اور وہ نیند میں ایک سہانا خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے، اِسی طرح چلتے چلتے ہمیں نیند نے آلیا اور ایک سہانا خواب شروع ہو گیا۔ اِسی خواب میں بیدار ہوئے، تعلیم پائی، ملازم ہوئے، پنشن ملی، بڑھاپا آیا، مرگئے اور فوراً آنکھ کھل گئی تو معلوم ہوا کہ
خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ہم ہر رات خواب دیکھتے ہیں جس میں ہم کھا پی رہے ہوتے ہیں، کھیل کود رہے ہوتے ہیں، کبھی ا پنی کامیابی پر خوش ہو رہے ہیں تو کبھی کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر پریشان ہو رہے ہیں لیکن جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے یہ سب تو خواب تھا۔ اگر فرض کریں ہم چالیس سال تک نہ جاگیں تو ہم اِسی خواب کو ہی اپنی اصلی زندگی سمجھنے لگیں گے۔ یہاں یہ سوال اچانک ذہن میں آتا ہے کہ کیا زندگی حقیقت ہے یا خواب؟ مرزا غالب نے کہا تھا

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوزجو جاگے ہیں خواب میں
حضرت محمد ﷺنے فرمایا۔ ۔ ” ؂لوگ سو رہے ہیں اور مرتے ہی جاگ اُٹھیں گے۔ ‘‘

نیند کیا ہے، موت و حیات کا ایک ہلکہ ساتجربہ۔ اِسی لیے تو اللہ تعالیٰ سورۃ نمر آیت نمر 42 میں فرماتا ہے۔ ”؂اللہ موت کے وقت انسانوں کی روحیں پوری طرح قبض کر لیتا ہے اور زندوں کو ہرشب میں موت کا نقشہ دیکھاتاہے۔ ‘‘
کسی بزرگ نے کیا خواب کہا تھا۔
زندگی ایک دم کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

ہر انسان کے ذہن میں سوال ابھرتا ہے یہ زندگی کیا ہے؟ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ یہ کیسے ختم ہو جاتی ہے؟ سا ئنسدانوں کا خیال ہے کہ اس کا ئنات کی ترکیب عناصر (Elements)سے ہوئی ہے۔ یہ عناصر مل کر مرکبات (Compounds)بناتے ہیں۔ مرکب بنانے کے لیے اِن عناصر کا ایک خاص نسبت میں ہونا ضروری ہے۔ یہ سب اللہ کا ہی کمال ہے کہ وہ نا صرف اِن عناصر کو ایک خاص نسبت میں رکھتا ہے بلکہ کسی قسم کا کوئی بیگاڑ بھی پیدا نہی ہونے دیتا۔ اِنہی عناصر کا ترتیب میں رہنا زندگی ہے اور اِسی ترتیب کا ٹوٹ جانا موت ہے۔ مثال کے طور پر پانیH2O)) زندگی ہے جو کہ زمین کا ستر فیصد ہے۔ اگر ذرا سی بھی آکسیجن( جو کہ سانس کے لیے ضروری ہے ) پانی میں زیادہ شامل ہو جائے تو یہ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ H2O2)) بنا دے جو کہ پینے کے لیے زہر ہے۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر پانی کے ترکیب اور پھر اس کی حفاظت ایک بہت بڑی قوت کا کام ہے جو اسے بطریق احسن سر انجام دے رہی ہے۔ اگر آج یہ قوتِ قاہرہ اپنی نگرانی اٹھا لے تو کائنات کا شیرازہ بکھر جائے۔ عناصر تحلیل ہو کر اپنے مراکز کی طرف بھاگ جائیں اور دنیا میں صرف دھواں ہی دھواں رہ جائے۔ زندگی ترکیبِ عناصر اور موت تحلیل عناصر کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ ترکیب و تحلیل اللہ کی مشیت کے مطابق وقوع پذیر ہو رہی ہے۔
زند گی کیا ہے، عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے، انہی اجزا ء کا پریشان ہونا

اللہ تعالیٰ سورۃ انعام آیت نمبر 61، 62 میں فرماتا ہے۔ ”۔ ؂کائنات پر اسی کی مشیت قاہرہ کی حکمرانی ہے اور اس نے تم پر محافظ مقرر کر رکھے ہیں جو ترکیب عناصر کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ حفاظت بغیرکسی کوتاہی کے موت( یعنی تحلیل عناصر) تک جاری رہتی ہے اور اس کے بعد لوگ اللہ تک پہنچ جاتے ہیں کائنات پر اِسی کی حکمرانی ہے اور وہ بڑا حساب دان ہے۔ ‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام جانداروں کی ترکیب آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، نائٹروجن اور چند نمکیات سے ہوئی ہے۔ اجزاء صرف اتنے ہی ہیں مگر ان کی نسبت Ratio)) میں فرق ہے۔ خالقِ کائنات نے ان عناصر کو ایک خاص نسبت میں رکھا ہے، ان میں ذرا برابر تبدیلی بھی کائنات کو تباہ وبرباد کر کہ رکھ دے۔

انسانی جسم کا تقریباً 99 فیصد حصہ آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفورس پر مشتمل ہے جبکہ 0.85 فیصد پوٹاشیم، سلفر، سوڈیم، کلورین اور میگنشیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تمام گیارہ عناصر زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ انسانی میں اِن عناصر کی فیصد مقدار درج ذیل ہے۔

انسان کا اگر کیمیائی تجزیہ کیا جائے تو اس کی موجودہ قیمت 1985.77 امریکی ڈالر بنتی ہے جا کہ آج کے پاکستانی ریٹ کے مطابق 245987.26 روپے ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو کروڑ رپے بھی دیے جائیں اور اس کو کہا جائے کہ اپنی ایک آنکھ دے دو تو وہ کبھی ایسا نہیں کریگا۔
ایک انسانی جسم میں موجود عناصر کا تخمینہ درج ذیل ہے۔
عنصر (Element)
، جسم میں مقدار (Mass in body)
5قیمت فی کلو گرام(Value per Kg $)
#کل ما لیتTotal value ($)
آ کسیجن
43
3
129
کاربن
16
24
384
ہائیدروجن
7
100
700
نا ئٹروجن
1.8
4
7.2

کیلشیم
1.0
200
200
فاسفورس
0.780
300
234
پوٹاشیم
o.140
1000
140
سلفر
0.140
500
70
سوڈیم
0.100
250
25
کلورین
0.095
1.5
0.14
میگنیشیم
0.019
37
0.7
آئرن
0.0042
72
0.3

آکسیجن اور ہائیڈروجن پانی کے اہم اجزاء ہیں۔ سیر شدہ اور غیر سیر شدہ چکنائی کی پہچان بھی ہا ئیدروجن کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ کاربن اور فاسفورس DNAکے بنیادی اجزاء ہیں۔ نائٹرروجن پروٹین بناتی ہے جبکہ کیلشیم اور فاسفورس ہڈیوں اور دانتوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ عناصر مختلف مرکبات (Compounds)کی صورت میں انسانی جسم میں موجود ہوتے ہیں۔ موت کے بعد یہ مرکبات مختلف کیمیا ئی اور حیا تیاتی عمل سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور دوبارہ عناصر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق انسان کی موت کی منصوبہ بندی کہیں پہلے سے ہی اُس کےDNAمیں شامل کی جا چکی ہوتی ہے جو ایک گھڑی کی طرح موت کے لمحات گنتی رہتی ہے۔

جیسے ہی وقتِ مقرر پہنچتاہے خلیوں کی توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے اور انسان موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔ موت کے بعد جسم کا ددرجہ حرارت کم ہو جاتا ہے جسے برُوُدۂ موت(Algor mortis)کہتے ہیں اِس کے بعد تعفن پیدا ہونے (Decomposition)اور لاش کے اکڑ جانے کے عمل میں مختلف کیمیائی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں ATPکا ناپید ہوتے چلے جانا اور Lactic acidosis کی وجہ سے L۔ lactateکا بننا ہے، جس کی وجہ سے خون کی pHکم ہو جاتی ہے۔ آج کی جدید طب اور ٹیکنا لوجی کی ترقی نے موت کو دل اور سانس کی حرکت رک جانے سے تعبیر کیا ہے۔ آج کاقانونی طبیب یا ڈاکٹرجب کسی کی موت کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے تو وہ دماغی موت (Brain death) کو حیاتیاتی موت (Biological death)لکھتاہے۔

انسانی جسم کو غور سے دیکھا جائے تو بال اگ ہے ہیں، آنسو بہہ رہے ہیں، دل دھڑک رہا ہے، سانس چل رہی ہے، کان سن رہے ہیں، آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور دماغ سوچ رہا ہے۔ اس کارخانے کے انجن کا نام روح ہے۔ اِسی طرح دنیا کے کارخانے میں جہاں دریا سمندر بہہ رہے ہیں، ہوائیں چل رہی ہیں، سورج روشنی دے رہا ہے، دن رات اپنے وقت پر آجا رہے ہیں الغرض ہر منظر اپنی بجا آوری میں مصروف ہے۔ لیکن قوت صرف ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ۔ جس طرح اللہ ہمیں نظر نہیں آتا مگر ہر جگہ موجود ہے اِسی طرح روح بھی نظر تو نہیں آتی مگر جسم میں ہر جگہ موجود ہے۔ آپ اپنے جسم پر غور کریں آنکھ، کان، زبان، جلد، ناک، بال، دانت، آواز وغیرہ سب کے اندر آپ کو عناصر کی خاص ترکیب نظر آئے گی۔ زندگی تر کیب عناصر اور موت انتشار عناصر کا نام ہے۔ اللہ سورۃ انعام آیت 6 میں فرماتا ہے

”؂تمہاری ترکیب خاکی ذرات سے ہوئی جس کے انتشار کا وقت بھی مقرر ہو چکا ہے‘‘۔
انسانی بدن کی تخلیق اللہ کا ایک حیرت انگیز اعجاز ہے جسے دیکھ کر عقل سربسجودہو جاتی ہے۔ بدن انسانی کی ترکیب خلیوں سے ہوتی ہے، ابتدا میں یہ خلیہ ایک ہوتا ہے پھر دو، چار، آٹھ میں بڑھ کر بدن کی تشکیل کرتا ہے۔ بعض خلیے کان، بعض آنکھ، بعض ناک اور بعض دیگر اعضاء کی تشکیل پر لگ جاتے ہیں۔ یہ آج تک کبھی نہیں ہوا کہ یہ خلیے سازش یا بغاوت کرکے کان کی جگہ ناک اور ناک کی جگہ آنکھ بنا ڈالیں۔ ایسا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ ایک بڑی طاقت ہر وقت اس کینگرانی میں ہے جس کی قہر مانی۔ ّت کے سامنے تمام کائنات سر تسلیمِ خم کرنے پر مجبور ہے۔ جیسا کہ سورۃ آل عمران آیت 83 میں ارشاد ہوتا ہے
۔ ” ارض و سما کی ہر چیز مشیّت ایزدی کو بجا لانے پر مجبور و مجبول ہے‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).