خدا سے کیا ستم و جور ناخدا کہیے


میرا مسئلہ نواز شریف ہے، مریم نواز ہے، کیپٹن صفدر ہے، عمران نیازی ہے، وکلا ہیں، ن لیگی ہیں نہ میڈیا سمیت دورسرے فریقین۔ میرا مسئلہ دشنام، انتقام، اتہام اور الزام ہیں۔ اسیران اڈیالہ جیل کی سزاؤں کی معطلی کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ن لیگ کی صفوں میں بجا طور پر خوشی کے شادیانے اور پرجوش ترانے بج رہے ہیں۔ ہر کارکن نشاط و مسرت میں ڈوبا ہوا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اسیران کی رہائی کی دھومیں مچی ہیں۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ ملک کے معزز اداروں پر بھی علانیہ تنقید ہو رہی ہے۔ جذبات اور ہیجان خیزی میں کہیں کہیں اعتدال اور توازن کی حدیں بھی عبور ہو رہی ہیں۔ وہ جو شاعرمشرق نےکہا تھا کہ
گفتار کےاسلوب پہ قابونہیں رہتا
جب روح کےاندرمتلاطم ہوں خیالات

مگر ان سب مسائل میں میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ ملک عزیز میں عدل و انصاف کا انتہائی نحیف و نزار اور آشفتہ حال معیار ہے۔ گو ہماری عدالتی تاریخ کبھی بھی مثالی یا شاندار نہیں رہی مگر جسٹس افتخار کے ڈکٹیٹر کے سامنے حرف انکار سے اس میں گویا نئی جان پڑ گئی تھی۔ جسٹس افتخارچودھری کے بہت سے فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر انہوں نے عدالتی فعالیت کے ذریعے آئین و قانون اور عدل و انصاف جیسے خشک اور بور موضوع کو ملک کا سب سے بڑا اور دلچسپ مسئلہ بنا دیا تھا۔ مگر اس کے بعد نواز شریف خاندان اور ن لیگ کے خلاف احتساب کے نام پر انتقامی اور یکطرفہ فیصلے سامنےآئے اور جس طرح انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

کیا ہماری عدلیہ کے لیے یہ حقیقت لمحہ فکریہ نہیں کہ آج پاکستان انصاف کی فراہمی کے حوالے سے 113ممالک کی فہرست میں 106 نمبر پر ہے۔ مطلب یہ کہ ہم دنیا کے پسماندہ ترین اور جنگ زدہ ملکوں سے بھی پیچھے ہیں۔ نواز شریف تو چلیں 68 دن بعد ناکردہ جرائم کی سزا بھگت کر فی الحال عارضی طور پر جاتی امرا روانہ ہو گئے ہیں اور انہیں سقراط، گلیلیو، مینڈیلا، صدام حسین، ذوالفقار علی بھٹو اور حسرت موہانی جیسے اسیران کی طرح بقول شاعر یہ شکوہ نہیں کرنا پڑا کہ
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
نہ پھول، نہ چمن نہ آشیانہ تھا

لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہماری عدالتوں میں کم و بیش بیس لاکھ مقدمات زیر التوا پڑے ہیں جو یقینی طور پر نہ ڈیم بنانے سے ختم ہوں گے اور نہ ملک کا قرض اترنے سے۔ کاش ہماری عدالتیں یہ بنیادی نقطہ سمجھ جائیں کہ عدالت کا کام جرم کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں عدالتیں جرم کے سرزد ہونے کے بعد اپنی کارکردگی دکھاتی ہیں ہماری طرح اپنا اصل کام چھوڑ کر انتظامی اور سیاسی معاملات کے پیچھے نہیں بھاگ پڑتیں۔

شکوک و شبہات اور گمان و بد گمانی کی دھند میں لپٹا ہوا اسیران اڈیالہ کی سزاؤں کی معطلی کا فیصلہ خو ش آئیند سہی مگر ن لیگ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حصول انصاف کی طویل و دشوار گزار مسافت کا پہلا چھوٹا سا پڑاؤ ہے ابھی کئی مقامات آہ و فغاں باقی ہیں۔ ن لیگ والےخوشیاں ضرور منائیں لیکن آنے والے سخت مراحل کے لیے قانونی حوالے سے تیاری کریں کیونکہ جن طاقتوں نے نواز شریف کو بغیر ثبوت کے اتنے بڑے اور گھمبیر مقدمات میں پھنسا کر سیاسی اور اخلاقی طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی ہے وہ اتنی آسانی سے انہیں چھوڑ نے کے لیے ہر گز آمادہ نہیں ہوں گی؟ ہائی کورٹ کے دونوں معزز ججوں کو یہ دلیرانہ اور مبی بر انصاف فیصلہ دینے پر ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اللہ کرے یہ فیصلہ انصاف بحالی کے ضمن میں نقطہءآغاز ثابت ہو۔ نواز شریف کی جرات، ثابت قدمی اور حوصلہ مندی کی تعریف نہ کرنا بھی قرین انصاف نہیں ہو گا۔ پچھلی بار کے مقابلےمیں اس مرتبہ جس طرح انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ڈٹ کر کھڑے رہنے کی مثال قائم کی ہے تمام سیاستدانوں کے لیے باعث فخر و انبساط ہے

درد کی ریت چھان کر جینا
کتنا مشکل ہے جان کر جینا
رہنا سر کش ہواؤں کی زد میں
اور پھر سینہ تان کر جینا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).