پیغام کربلا اور ہماری ناحق کے سامنے جی حضوری


مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہیں جب لوگوں نے حضرات امام حسین علیہ سلامُ کو مشورے دیے تو بعض لوگوں نے کہانی آپ مکہ ٹھہر جائیں۔ وعظ ونصیحت کرتے رہیں۔ منبر پر جاکر امر با المعروف و نہی عن المنکر بیاں کرتے رہیں۔ اس طرح یہ جہاد ادا ہو جائے گا۔ لیکن امام حسین علیہ سلام نے فرمایا، ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ بلکہ میں عراق جا کر امربالمعروف و نہی عن المنکر کروں گا ’وہاں جا کر منکر سے ٹکراؤں گا جہاں سے کفر کوپھیلا جارہا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اورباطل سے روکا نہیں جارہا ہے تو ایسے حالات میں مومن کو چاہیے کہ اپنی جان دینے سے دریغ نہ کرے بلکہ لقا اللہ کے لئے آمادہ ہوجائے۔

ان باتوں سے ثابت ہوجاتا ہے کہ امام حسین علیہ سلام کی جنگ اقتدار کہ نہیں بلکہ اقدار کی تھی یعنی حق اور سچ کے اقدار کی بقا کے لئے نواسہ رسول نے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا۔ یزید اور امام کے درمیاں جنگ۔ دراصل حق اور باطل کی جنگ تھی۔ یزید اقتدار کی ہوا میں گرفتا ہوکر اسلامی اصولوں کو تہس نہس کرنا چاہتا تھا۔ عدل و انصاف کے تمام قواعد وضوابط پس پشت ڈال کر معاشرے میں جنگل کا قانوں نافذ کرنے میں مگن تھا۔ اور انسانیت کے امام کو بھی اپنی بیعت کی درخواست کی تھی۔ مگر امام اعلی مقام نے انکار کیا اور فرمایا۔ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا بلکہ یہ فرمایا مجھ جیسا بھی ہوگا اور یزید جیسا بھی ہوگا۔ یعنی یہ دور تکرار ہوتا رہے گا اقدار کی جنگ بار بار آتی رہے گی۔ تو اس وقت مجھ جیسا اٹھے گا اور امربالمعروف کرے گا، اقدار کی جنگ لڑے گا یزید جیسے کو منکرات پھلانے سے روکے گا اور یہ مقابلہ ہمشہ رہے گا یہ جنگ ہوتی رہی گی اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہیں کہ حق اور باطل ہر زمانے میں موجود رہے گے ہر دور میں حسینی اور یزیدی کردار ساتھ ساتھ رہنگئے۔ ظلم کے خلاف بغاوت حسینی کردار کا حصہ رہے گا ظلم کرنا اور ناحق کو سپورٹ کرنا یزیدی کردار کا حصہ ہوگا۔

آج اگر ہم اپنے معاشرے کی خبر لیتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہیں کہ آج بھی یہ دونوں کردار ہمارے معاشرے میں نمایاں نظر آرہے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے یہاں آج یزیدی کردار کا راج ہیں جہاں حق اور سچ کو پہچانے کے باوجود باطل کے صحفوں میں بیٹھ کر سچ کا تمسخر آڑیا جاتا ہے۔ حق کے راستے پر چلنا تو دور کی بات ہیں سچ سننے کو کوئی تیار نہیں یہاں جھوٹ بکتا ہے یہاں ناحق کے سامنے سستی شہرت کے لئے جی حضوری کا کلچر عام ہوچکا ہے۔ یہاں پر ہر چیز کو دولت اور طاقت کے بل بوتے خریدا جارہا ہیں۔ یہاں تک انسانوں کے ضمیر وں کو خریدا جاتا ہے۔ حق بات کی تائید کرنے اب اس سماج میں ناپید ہو گئے ہیں اقدار حسینی اب ختم ہو چکے ہیں یہاں ایمان بکتا ہے قلم بکتا ہے مذہب بکتا ہے جس کے عوض اقتدار کو خریدا جاتا ہے مگر اس کے باوجود کسی عالم کے پاس اتنی جرات نہیں وہ اپنے اس پاس بیٹھے کسی یزیدی کردار کے خلاف بولے۔ لیکن دعوے کے تو ہم سب حسینی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس معاشر ے میں کب کے اقدار حسینی ہار گئے ہیں۔ محرم کے ایام میں کالے کپڑے پہنا اب ایک فیشن بن چکا ہے مگر مقصد امام حسین علیہ سلام کی طرف توجہ دینے کو کوئی تیار نہیں۔ ‘میں ان علماء کو کیسے حسین کا نوکر کہو جو وقت کے یزید کو للکارنے کی جرات نہیں رکھتے۔ کربلا اور ایام محرم صرف کپڑے تبدیل کرنے کا نام نہیں۔ بلکہ دور کے ظالم کو للکارنے کا نام ہے بہرحال اقدار عاشورہ پر چل کر ہی مسلمان ممالک امریکہ جیسے اقدار یزید ملکوں کی غلامی سے آزاد ہوسکتے ہیں۔ ہمارے حکمران اگر کربلا کے اقدار پر چلے تو باطل طاقتوں کوشکست دیں سکتے ہیں اقدار حسینی ہی سے ناحق کے سامنے جی حضوری کا سفر ختم کرسکتے ہے کیونکہ یہی پیغام کربلا ہیں
یہ درس کربلا کا ہے
کہ خوف بس خدا کا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).