بھینسوں کی قسمت کا تارا اوج پر ہے



جب سے ہمیں وزیر اعظم ہاؤس کی شاہانہ اور والہانہ زندگی گزارنے والی بھنیسوں کے کے بارے میں پتہ چلا ہے، ہم رشک و حسد کے احساسات سے مرے جا رہے ہیں۔ کہاں پی ایم ہاؤس کی گراں قدر و عالی نسب 8 عدد بھینسیں اور کہاں بائیس کروڑ اللہ میاں کی گائیں؟ کسی دل جلے نے اپنے دل کےپھپھولے کیا خوب پھوڑے ہیں کہ بدقسمتی سے ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں نواز شریف کی بھینسیں، زرداری کے گھوڑے اور عمران کے کتے کروڑوں مفلوک الحال پاکستانیوں سے کہیں بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔

سنا ہے 27 ستمبر کو ان بھینسوں کا نیلام عام ہے۔ جب کسی آدمی کو اپنی کوئی قیمتی یا اعزازی متاع کسی مالی پریشانی کی وجہ سے بطور نیلامی بازار میں لانا پڑتی ہے تو یہ اس کے لیے انتہائی توہین آمیز اور دکھ و الم میں ڈوبا ہوا موقع ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو معاشی بھونچال مجبوروں سے اپنےجگر کے ٹکڑوں تک کو سر عام بازار میں لانے پرمجبور کر دیتا ہے۔ کچھ وضعدار بزرگ پرکھوں کی انمول نشانی حویلی کو نیلامی سے بچاتے بچاتے خود ہی نیلام ہو جاتے ہیں مگر ان کی نا خلف اولاد جب اپنی عیاشیوں کے لیے اسی حویلی کو نیلام کرتی ہے تو ہر دیکھنے سننے والے کےدل پر چھریاں چل جاتی ہیں۔
جس کو بچائے رکھنے میں اجداد بک گئے
ہم نے اسی حویلی کونیلام کر دیا

یہی نہیں بلکہ کچھ ہوا و ہوس کے مارے فریب خوردہ ستم کیش تو متاع ہنرکےساتھ سہانےخوابوں کا بھی سودا کر لیتے ہیں۔ وہ خواب جو سقراط کی متاع بے بہا ہیں۔ وہ خواب جو منصور کی عمر بھرکی کمائی ہیں۔ وہ خواب جو کر بلا والوں کا کل اثاثہ ہیں۔ وہ خواب جو کارل مارکس کی زندگی کی امنگ ہیں۔ وہ خواب جو مادام کیوری کا سرمایہ حیات ہیں۔ وہ خواب جو قائد و اقبال کی فکر رسا کا خزینہ ہیں۔ وہ خواب جو شرف انسانیت و اوج آدمیت ہیں۔

بولی لگی متاع ہنرکی تو اہل فن
جلدی میں اپنے خواب بھی نیلام کر گئے

خیر بات چلی تھی پی ایم ہاؤس کی بھینسوں کی نیلامی سے درمیان میں چند جملہ ہائے معترضہ آگئے۔ ان بھینسوں کے مقدر کا ستارا بلندی پر تھا مگر یکا یک ان کی خوش قسمتی بد بختی میں ڈھل گئی۔ دن رات ان کی خدمت کرنے والے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے لیے اجنبی بن گئے۔ جو رات دن ان کے آگے پیچھےپھرتے تھے اب ان کی باگیں تھام کر نئے گاہکوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ بھینسیں انسان کی اس طوطا چشمی پر سخت پشیمان ہیں۔

پی ایم ہاؤس والوں نے انہیں کتنے ناز ونعم سے پالا تھا۔ ان کی رہائش، خوراک اور دوسرے لوازمات ہم جیسے غریبوں کے لیے قابل رشک ہیں۔ ایک محب وطن صحافی نے تو پی ایم ہاؤس میں بھینسوں کے غسل کے لیے جہازی سائز کا باتھ ٹب بھی ڈھونڈ نکالا تھا۔ وہ اسے دیکھ اور ناظرین کو دکھا کر کانوں کو ہاتھ بھی لگا رہے تھے۔

اللہ اگر انہیں توفیق دے تو وہ مری بروری کے پاس ایک خستہ حال سی کٹیا کے درشن بھی عوام کوکرا دیں تاکہ سب کو حق الیقین ہو جائے کہ ہمارے ہاں ملک کے لیے قربانیاں دینے والے کس حال میں ہیں اور عوام کے پیسے پر اللے تللے کرنے والے کتنی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔

بات ہو رہی تھی بھینسوں کی نیلامی کی، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کسی ستم ظریف کا یہ سفاک تبصرہ بہت مشہور ہوا کہ“ابھی بھینسوں کا مسئلہ حل نہ ہوا تھا کہ عدالت نے نیا کٹا کھول دیا۔ “اور تو اور بھینسیں امریکہ اور کینیڈا میں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں ”ارنا بھینسا“ کہا جاتا ہے۔

ان کی وضع قطع، عادات و اطوار اور حال حلیہ ہماری ہی بھینسوں جیسا ہے۔ ان کی بھی کھال اور عقل موٹی ہوتی ہے۔ وہ بھی سست الوجود اور کاہلی کا پیکر ہوتی ہیں۔ ان کےآگے بھی بین بجائی جائے تو انہیں سمجھ نہیں آتی۔ ان کا بھی ایک سر، چار ٹانگیں اور ایک دم ہے۔

مشتاق یوسفی کے بقول ”دم اس لیے ہوتی ہے کہ دکھیا کے پاس دبا کر بھاگنے کے لیے کچھ تو ہو“ہمیں بھنیس یوں بھی پسند ہے کہ یہ ہمارے کلاسیکی اور روایتی عاشق نامراد رانجھے سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ رانجھے کو ہیر تو نہ ملی مگر بھنیسیں چرا کر کچھ دن ہیر کے ہاتھ سے چوری تو کھا لی۔ بقول شاعر
شاعری تمہاری سن کے لی انگڑائی
دودھ پی گیا اب توسارا ابا
ملازم رکھنے کی ہوئی طاقت تو
رانجھے پال لیتے بن کے ہیرتم
دودھ بھی ملتا پینے کو مفت میں
میسرہوتی عاشقی بھی جینے کو

دانشوروں اور لکھاریوں نے عقل کا موازنہ ہی کیوں بھنیس سے کیا ہے؟ وہ دل، روح، ضمیر، بدن، پھیپھڑوں وغیرہ کا موازنہ بھی تو بھنیس سے کر سکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ بھنیسیں بھنیسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ جن کو اس پر اعتراض ہے وہ بھنیسوں کو بے شک اپنی بہنیں بنا لیں۔ شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ بھنیسیں ایک دورسرے سے محبت نہیں کرتیں کیونکہ محبت اندھی ہوتی ہے۔

کسی نے عمران سے کہا کہ بھنیسوں کو نیلام کرنےکے بجائے ان کا دودھ بیچ کر ڈیم کے لیے چندہ جمع کریں۔ اس پر انہوں نے شیخ رشید کی زبان بولتے ہوئے کہا کہ اگر دودھ آسانی سے دستیاب ہو تو بھنیس رکھنے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ انور مسعود اگرچہ انارکلی کی رنگینیوں میں پھنس جانے والی بھولی بھالی بھنیس کی منظوم دلچسپ داستان رقم کر چکے ہیں تاہم انہوں نے ایک جگہ بھنیسوں سے گلو خلاصی حاصل کرنے کا یہ تیر بہ ہدف نسخہ بھی دیا ہے۔

بھنیس رکھنے کا تکلف ہم سے ہو سکتا نہیں
ہم نے سوکھے دودھ کا ڈبا جو ہے رکھا ہوا
گھر میں رکھیں غیرمحرم کوملازم کس لیے
کام کرنے کے لیے ابا جو ہے رکھا ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).