بیوروکریسی اور وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں


بیوروکریسی حکومتی عہدے داروں کا ایک ایسا گروہ ہوتا ہے جو عوام کے منتخب کردہ نہیں ہوتے۔ یہ اپنی قابلئت کی بنیاد پر ایک مخصوص۔ سول سروس کا امتہان پاس کرکے آتے ہیں اور اپنی قابلئت کے بل بوتے پر ترقی کرتے کرتے گریڈ 22 تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ کسی بھی حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکومت چلانے کے لئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سیدھے اور ٹیڑھے تمام راستے اختیار کرتے ہوئے امور مملکت چلاتے ہیں۔

موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے۔ اسے سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کیا کریں‘ کہاں سے شروع کریں۔ مسایل کا انبار ہے۔ لہٰزہ ابھی کنٹینر پر کھڑے رہنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ وہی باتیں اور نعرے جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر کی جاتی تھیں، دہرائی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم روزانہ کئی کئی میٹنگز  کر رہے ہیں۔ وزرا صرف چائے پر ٹرخائے جا رہے ہیں۔

بزرگ وزرا کی صحت متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ شیریں مزاری کام کی تھکن بھی آفس میں اتار کر جاتی ہیں۔ دفتر کی کرسی پر ہی سو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم کام کی زیادتی کی وجہ سے ہر میٹنگ کے لئے نئی تقریر نہیں بنا سکتے۔ وہی کنٹینر والی باتیں‘ 6 ارب روزانہ۔ سود۔ نواز شریف کی میٹرو جو وہ بنا کے خود جیل میں مزے کر رہا ہے اور قوم میٹرو کے دھکے کھا رہی ہے۔ موٹر وے کاقصہ کہتے ہیں غریب آدمی کے پاس تو ٹوٹی پھوٹی کار ہوتی ہے وہ کہاں موٹر وے پر چل سکتی ہے۔ اس کا فائدہ صرف امرا کو ہے جن کی بڑی بڑی گاڑیاں ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس آکر البتہ آپ کو ایک نئی بات کا پتہ چلا ہے وہ 6 بھینسیں ہیں جو پہلوان شریف نے دودھ پینے کے لئے رکھی ہوی تھیں۔

 قائداعظم محمد علی جناح نے 1948 میں پشاورمیں بیوروکریٹس سے خطاب کرتے ہوے فرمایا تھا کہ آپ امور مملکت چلاتے ہوئے کسی سیاستدان کے دباؤ میں نہ آئیں۔ کسی وزیر کی ناجائز بات نہ مانیں۔ صرف اپنی اور ملک کی عزت کو ملحوز خاطر رکھیں۔ اس کے لئے آپ کو قربانی بھی دینی پڑے گی۔

 آج اسلام۔ آباد میں بیروکریٹس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے فرمایا مجھے صرف دوسال دے دیں۔ گورننس بہتر ہو جاے ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہمارا قرضہ اتر جائے گا۔ انویسٹر اور سیاح پاکستان پر ٹوٹ پڑیں گے۔

سابقہ حکومت نے میٹرو جیسے نقصان اٹھانے والے منصوبے بنائے۔ اتنے عالیشان وزیراعظم گھر بنائے ’گورنر ہاؤس بناے۔  ہم انہیں یونیورسٹیاں اور ہوٹل بنا کر منافع کمائں گے۔ یہ بھی فرمایا وزیراعظم ہاؤس میں بھینسیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم یہ سب کچھ بیچ دیں گے۔ آپ کو کسی بیوروکریٹ نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ یہ تاریخی بھینسیں ہیں۔ ان کی نسل بڑھائیں اور ان کا دودھ بیچ کر قرضے اتاریں۔ مزید اینٹوں پر کھڑے چار ہیلی کاپٹر بھی برائے فروخت بتائے جاتے ہیں۔

پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا۔ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ بنا۔ وزیر اعظم اور گورنر جنرل اور سیکریٹری لیول سے لے کر چھوٹے افسر تک کے لئے دفتر نہیں تھے۔ کاغذ پنسل تک نہ تھے۔ ان حالات میں بھی بیوروکریسی نے ملک چلایا۔ اسلام آباد کا نیا شہر بسایا گیا۔ اس کا ماسٹر پلان بنا۔ جس میں وزیراعظم سیکریٹریٹ، سپریم کورٹ، پریزیڈنسی اور مسلح افواج کے دفاتر، مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے۔ یہ کسی عوامی وزیراعظم کی خواہش پر نہیں تعمیر کیے گئے۔ اسی طرح بیورکریسی کا ڈھانچہ بھی کسی وزیراعظم کی خواہش پر نہیں بنایا گیا۔

 یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ہی نے اتنا بڑا گھر اپنی عیاشی کے لئے بنایا تھا۔ نواز شریف چھ بھینسوں کا دودھ پیتا تھا۔ سو بلٹ پروف گاڑیاں چلاتا تھا۔ بڑے بڑے پارکوں میں سیر کرتا تھا۔ شام کو روزانہ ہیلی کاپٹر سفاری کرتا تھا۔ جہاز پر ہمالیہ کی چوٹیاں سر کرتا تھا۔ 536 ملازم روزانہ اس کو گارڈ آف آنر پیش کرتے تھے۔ حالانکہ اس گھر میں ایسے وزرائے اعظم بھی رہے جو یہاں وزیراعظم ہاؤس میں ایک رات بھی نہیں ٹھرے۔ مگر کبھی بھی اپنی سادگی کا شور نہیں مچایا۔ ملک معراج خالد اور شاہد خاقان کی سادگی کا ایک زمانہ معترف ہے۔

 حقائق بتاتے ہیں کہ ہر حکومت نے بیوروکریسی کو پبلک اور کیمروں کے سامنے یہی باتیں کیں جو محترم وزیراعظم نے آج اسلام آباد میں بیوروکریسی سے خطاب کرتے ہوے فرمائیں۔ مگر جو ہدایات انھیں وقتاًفوقتاً آف دی ریکارڈ دی جاتی ہیں وہی اصل ہدایات ہوتی ہیں۔ اور بیوروکریٹ انہی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ وہی ہدایات ماتحت افسروں تک پہنچ جاتی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر چکوال اور ڈپٹی کمشنر راجن پور شاید یہ بات بھول گئے تھے۔ انھوں نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس کو سیاسی مداخلت بارے خط لکھ دیا۔ سیاسی مداخلت تو کیا روکی جاتی الٹا ان افسران کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کرادی گئی۔ پیڈا ایکٹ پنجاب کا وہ کالا قانون ہے جس کی زد میں شریف اور ایماندار افسروں کو بھی آسانی سے بد دیانت ثابت کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).