عاشق چچا کی چینی سے وشنو کے تعویذ تک



قرآن پاک میں واضح لکھا ہوا جو جیسا گمان کرے گا اُسے وہی ملے گا اسی لئے کہا جاتا ہے ہمیشہ اچھا سوچیں اور مثبت رہیں اللہ سے ہمیشہ اچھے کی اُمید رکھنی چاہیے نا امیدی یا مایوسی اسی لئے گناہ ہے کیونکہ وہ کفر کی طرف لے جاتی ہے جیسے ہی آپ نا امید ہونا شروع ہوتے ہو ابلیس اپنا کام شروع کر دیتا ہے ابلیس کا معنی ہی نا امید ہے، مایوس ہے اسی لئے یہ کام بھی شیطان کا ہے اللہ اپنے پیاروں کو آزماتا ہے اور اسی آزمائش میں چھانٹی ہو جاتی ہے کہ اللہ والا کون ہے اور ابلیس والا کون۔ اپنی غزل کا ایک شعر ذہن میں آگیا

یونہی افلاس و عقیدے کی اگر جنگ رہی
تیری دہلیز پہ سجدہ نہیں ہوگا ہم سے

تو افلاس اور عقیدے کی جنگ میں اللہ والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کہ جیسا گمان کرو گے ویسا ہی پاؤ گے ایک بار روہڑی کے پاس واقع ایک بہت بڑے مندر میں جانا ہوا وہ ایک سرنگ میں تھا جو انڈیا سے جا ملتی ہے اب چونکہ سیکیورٹی نقطہ نظر سے بند کر دی گئی ہے وہاں کالی ماتا کا بت تھا جس کے سامنے ایک عورت نے اپنے بچے کو فرش پر ہی لٹایا ہوا تھا اور وہ بچہ سکون سے سو رہا تھا میں نے سوچا اب اُس عورت کا ایمان تو اور پختہ ہو گیا ہوگا کہ اُس کا بچہ کالی ماتا کہ سامنے سکون سے سویا رہا ہے ذرا بھر بھی نہیں رویا سو اُس نے جیسا گمان کیا اُسے وہی ملا۔

ہمارا ہم نام دوست ہے اُس کی کپڑے کی دکان ہے اُس کے سامنے ایک انگور کی ریڑھی والا جب بھی گزرتا ہے اُس سے سلام ضرور لیتا ہے اور نذرانہ کے طور پر کچھ انگور دے بھی جاتا ہے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پہلی بار جب اُس کی ملاقات ہوئی تھی تو اُس کی ریڑھی کے پھل تیزی سے فروخت ہوگئے تھے اور پھر اُس نے اس بات پر یقین کر لیا کہ یہ بندہ میرے لئے شُبھ ہے اور اب وہ باقاعدہ اُس سے پڑھنے کا بھی کہتا ہے اور ہمارا دوست بھی اب بادلِ نخواستہ اُس کے اصرار پر پڑھ دیتا ہے کہ چلو اس کا اطمینان ہو جائے؛ وجہ، گمان!

ہمارے ایک چچا جو اب وفات پا چکے ہیں اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے بہت عاشق مزاج واقع ہوئے تھے بہت خوبصورت بانسری بجاتے تھے اور اسی فن کے ذریعے کافی عشق بھی کمائے والد مرحوم ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے بہت نالاں تھے چچا جان ہمارے گاؤں کی ایک محترمہ کو لے کر لاہور فرار ہوگئے اور اسی وجہ سے والد مرحوم نے تمام عمر پھر اُن سے تعلق نہ رکھا کیونکہ وہ گھر کے سربراہ تھے اور چچا کی اس حرکت پر انہیں کافی ہزیمت اُٹھانی پڑی۔

بہرحال چچا جان ہماری نئی اور نجانے کتنے نمبر والی چچی کے ساتھ لاہور رہنے لگے یہ 1995۔ 1996 کی بات ہے اُن دنوں ہم بھی لاہور میں تھے سو دوسرے تیسرے دن ان کی طرف چکر لگ جاتا تھا۔ وہ جہاں رہ رہے تھے وہ چار کمروں اور ایک صحن والا گھر تھا ہر کمرے میں مختلف کرائے دار تھے جس میں ہمارے چچا جان تھے ان کے بالکل سامنے والے میں ایک کم عمر خاتون تھی جس کی ایک بیٹی بھی تھی اور قابلِ ذکر بات یہ کہ وہ بھی ہمارے چچا کے سحر میں جکڑی جا چکی تھی۔ اس بات کا اندازہ ہمیں تب ہوا جب ہماری نظر انجانے میں اُس خاتون پر دو تین بار رُکی اور ہمارے چچا جان نے جانے ہمارے کون سے احساس کو بھانپتے ہوئے کسی انجان خدشے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ہمارے گوش گزار کیا،

”پُتر! اے وی تواڈی ماں اے“ یعنی

”بیٹا! یہ بھی آپ کی ماں ہے“ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کہ یہ جملہ ہمارے دل پر بجلی بن کر گرا ہو، ہاں ہلکا سا شارٹ ضرور لگا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ چچا جان نے وہاں چینی پڑھ کر دینا شروع کر دی تھی۔ بہت قلیل عرصہ میں ان کے معتقدین کی تعداد کافی بڑھ گئی تھی ایک استانی صاحبہ اپنی بہنوں کے رشتوں کے لئے کافی پریشان تھیں وہ تقریباً روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھوا کر لے جاتی اور میں اس لئے پریشان تھا کہ ان کی بہنوں کا رشتہ ہو نہ ہو اُن کا رشتہ یہاں نہ ہو جائے اور گمان پورا ہو جائے۔

محلہ کانجواں، رحیم یار خان میں ایک ہندو پنڈت ہے جس کا نام وشنو ہے۔ اس کا بہت نام ہے دور دور سے لوگ اس کے پاس آتے ہیں نہ صرف غیر مسلم بلکہ اچھے خاصے باریش مسلمان بھی اس کے پاس آتے دیکھے گئے ہیں وشنو کے بارے میں یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ تقریباً روزانہ رات کو وہ کسی پہر سرکاری ہسپتال میں مریضوں کی تیمارداری کے لئے بھی جاتا ہے اور مالی مدد بھی کرتا ہے یہ بہرحال اُس کا ایک ذاتی اور اچھا فعل ہے۔ سننے کو یہ ملا کہ وہ تعویذ دیتا ہے اور قرآن پاک سے دیتا ہے۔ جو ہمارے مسلم بھائی اُس کے پاس جاتے ہیں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ قرآن کی آیات پڑھنے کے لئے دیتا ہے تب سر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ کیسے لوگ ہیں جنہیں اپنے نبی ﷺ کی بات سمجھ نہیں آئی ایک پنڈت کی بات سمجھ آگئی۔

یونیورسٹی میں وزٹنگ پر ایک بار لیکچر دیتے ہوئے عقائد پر جب بات چل نکلی تو وشنو کا ذکر کر کے ہم نے اس کی بہت مذمت کی اور خدا کا کرنا دیکھیں اُسی دن شام میں ہمارے ماموں جو ہماری اب تک کوئی پکی نوکری نہ ہونے کی وجہ سے کافی پریشان تھے گھر آئے تو کہنے لگے ”بیٹا! آپ کی والدہ سے میں بات کر رہا تھا کافی عرصہ ہوگیا ہے آپ کی نوکری نہیں ہوئی میرا ایک دوست ہے اُس کا واقف ہے وشنو نام ہے اُس کا، اُس سے حساب کتاب کرواتے ہیں کافی لوگوں کا کام ہوا ہے۔ چلیں اُس کے پاس؟ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).