چھاچھ سے جلی قوم کا حلف


ایک مچھلی فروش نے اپنی دکان پر نیا بورڈ آویزاں کیا۔
”یہاں پر تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے“

ایک صلاح کار نے مشورہ دیتے ہوئے فرمایا، ”میاں جو بھی بورڈ پڑھے گا، یہاں آکر ہی پڑھے گا ناں، تو اس فقرے میں ”یہاں پر“ فالتو ہے۔ “
مچھلی فروش نے برش پکڑ کر پہلے دو الفاظ مٹا دیے۔ پیچھے رہ گیا،
”تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے“

ایک اور صاحب نے شگوفہ چھوڑا، ”بھائی صاحب! تازہ کا لفظ جچ نہیں رہا، یہ تو گاہک کو خود شک میں ڈالنے والی بات ہوئی، گویا مچھلی باسی بھی ہو سکتی ہے۔ “
بات میں وزن تھا، مچھلی فروش نے تازہ پر بھی برش چلا دیا۔

اگلے صاحب نے درفنطنی چھوڑی، ”حضرت دو گلیاں پیچھے سے باس آرہی ہے، آپ کی دکان پر مچھلی نہیں تو کیا کچھوے بکتے ہیں؟ “ سو بورڈ سکڑ کر ”فروخت ہوتی ہے“ رہ گیا۔

”اماں فروخت نہیں تو کیا نمائش کو رکھی ہے؟ “
اب بورڈ پر صرف ”ہے“ رہ گیا ہے۔

یہ لطیفہ نما واقعہ یا واقعہ نما لطیفہ سالوں پہلے کسی استاد مزاح نگار کے کلام میں پڑھا تھا۔ اور اُس دن سے رہ رہ کر یاد آرہا ہے، جس دن وزیرِ اعظم صاحب نے حلف لیا اور حلف نامے کی عبارت اور وزیرِاعظم صاحب کی لڑکھڑاتی ادائیگی زیرِ بحث آئی۔ ناقدین نے وزیرِاعظم کی اردو زبان سے نامانوسیت، تیاری کی کمی اور نہ جانے کیا کیا سازشی تھیوریاں کھوج نکالیں۔ دوسری جانب دفاع کاروں نے حلف کی زبان کو آسان اور قابلِ فہم بنانے کی فرمائش کرڈالی۔ کسی قانونی، رسمی عبارت کو کس قدر سہل زبان میں ہونا چاہیے اس پر بحث کسی آئندہ وقت پر موقوف رکھتے ہیں۔ مگر اس وقت میرا موضوع حلف کی عبارت اور اس کا برسوں پرانے اس لطیفے سے تعلق ہے۔

ہمارے وزیرِاعظم کے حلف کی انگریزی عبارت ڈھائی سو سے زائد الفاظ پر مشتمل ہے۔ مسلمان ہونے کا اقرار، مگر پھر ایمان کی پوری تشریح، مبادہ کوئی لارنس آف عریبیہ نہ نکل آئے۔ محض آئین نہیں، قانون کی بھی پاسداری، اسلامی آئیڈیالوجی (گویا یہ دینِ اسلام سے مختلف کوئی شے ہے) کا تحفظ، اقربا پروری، بددیانتی وغیرہ وغیرہ سے اجتناب اور بہت کچھ۔

اس کے مقابلے میں برطانیہ کے وزیرِاعظم کا حلف انتیس الفاظ کے دو فقروں پر مشتمل ہے۔ جس میں تاج برطانیہ سے وفاداری کا اقرار اور خدا سے مدد کا ذکر ہے۔ گو تاج برطانیہ خود ایک عدد چرچ سے منسلک ہے، مگر برطانیہ کے وزیرِاعظم کا اس سے وفاداری، اپنی عیسائیت کا اعتراف اور اس عقیدے کی تصریح سے کوئی لینا دینا نہیں۔ باضابطہ آئین کا تو خیر کھکھیڑ ہی نہیں پالا گیا۔

اسی طرح امریکہ کا صدر پینتیس الفاظ پر مشتمل دو جملوں میں حلف اٹھاتا ہے۔ آئین کی حفاظت اور دیانتداری سے فرائض کی ادائیگی اور بس۔ سول وار اور خانہ جنگی کی طویل تاریخ کے باوصف کسی جغرافیے، نظریئے اور عقیدے کے ارتداد کا کوئی تذکرہ نہیں۔

چین کا صدر سڑسٹھ لفظوں کا حلف لیتا ہے۔ آئین سے وفاداری، آئین کی حاکمیت، اپنے عہدے کی ذمہ داریوں، مادرِوطن اور عوام سے وفاداری، عوامی امور کی دیانتداری سے ادائیگی اور خوشحال، مضبوظ، جمہوری، سوشلسٹ اور متحد ملک کے لئے جدوجہد کرنے کا عہد اس حلف کا حصہ ہیں۔ سخت گیر کمیونسٹ آمریت ہونے کے باوجود نا کسی مذہبی وابستگی سے انکار، نہ سوشلزم کی تعریف و تصریح، نہ کوئی اور اگر مگر۔

ان ممالک کے حلف کی عبارتیں ان ممالک کے اپنی شناخت، بنیاد اور معاشرے کے بنیادی فیبرک پر ان کے اعتماد کا پیمانہ ہیں۔

لطیفے کا مزاح اپنی جگہ، مگر ایک پُر اعتماد مچھلی فروش کو واقعی بورڈ کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے۔ کیونکہ اسے اپنی مچھلی، اس کی تازگی اور اس کے برائے فروخت ہونے پر کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ مگر ہم ایک کنفیوز قوم ہیں۔ ہمارے لئے اپنا اور دوسروں کا ایمان، حُب الوطنی، قومیت، غرض ہر چیز مشکوک بنا دی گئی ہے۔ اس لئے صرف مسلمان ہونے کا اقرار کافی نہیں، ہمیں ایمان کی تصریح بھی درکار ہے۔ کیونکہ ہم نے ہر معاملہ ”وسیع تر قومی مفاد“ میں طے کرنا ہے، اس لئے افشاءِ راز کا حلف بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہم جغرافیہ بھی سنبھال نہ پائے، اس لئے نظریے کی سرحدیں تخلیق کرکے ایک غیر مرئی دفاعی مہارت حاصل کرلی گئی ہے، یہ تمام معاملات وہ چھاچھ ہے جس سے ہمیں مسلسل جل جانے کا ڈراوا دیا جاتا ہے، جبکہ ہم وہ سرمست فقیر قوم ہیں جو گرما گرم ناگفتنی دودھ ہر بار امرت دھارا سمجھ کر ڈکار جاتے ہیں۔

ہمارا حلف ہماری اسی کیفیت کا مظہر ہے، یہ چھاچھ سے جلی، گرم دودھ ڈکار جانے والی قوم کا حلف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).