کیا خلائی مخلوق کو ہندوستان کی ترقی دیکھ کر کچھ کچھ ہوتا ہے؟


پہلی مرتبہ جب تجسس کے مارے انسان خلا میں گئے اور نیچے دیکھا تو زمین پے ایک ہی علاقے میں پھیلی کئی لکیریں نظر آئیں۔ یوں لگا جیسے قدرت نے سکے والی پنسل سے کچھ بنانا چا ہا تھا۔ یہ دیوار چین کے ٹکڑے تھے۔ یہ آج دنیا کا عجوبہ مانی جاتی ہے۔ اگر انسان اس کے خدوخال کا مطالعہ کرے تو نتائج تعجب کا ایک طویل سلسلہ ہیں۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ آمد مسیح سے سات صدیاں قبل چینی قبائل نے بغیر چندہ جمع کیے دیوار چین کی تعمیر کا آغاز کیا۔ کیا غضب لوگ تھے۔ سینکڑوں سال دیواریں بناتے رہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق سولہویں صدی تک تعمیر کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کا مقصد شمال میں آباد منگول اور تاتار قبائل کی سفاکیت کو روکنا تھا۔

منگول تعداد میں بہت کم تھے۔ خانہ بدوشی کی زندگی گذارتے تھے۔ سخت سردی اور خوراک کی قلت جب ان میں بچاؤ کی جبلت بیدار کرتی تو خمیازہ سب سے پہلے چینیوں کو بھگتنا پڑتا۔ لوٹ مار کرتے، قتل و غارت مچاتے اور عورتیں اغوا کر کے لے جاتے۔ انہیں طاقت کے بل بوتے پے ہرانا ناممکن تھا۔ چینی لوگ نے عقل لڑائی اور دیوار بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دیوار چین کی کل لمبائی بیس ہزار کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے جس کے ہر ایک کلو میٹر پے فوجی چوکی بھی تعمیر کی گئی۔ منگولوں نے شکست مانی نہ چینیوں نے ہتھیار ڈالے۔ کبھی کبھار دیوار توڑنے میں کامیابی ہو جاتی تو وقت اچھا گزر جاتا، ورنہ چینی شانتی امن کا مزہ لیتے رہتے۔ منگولوں کی آبادی بڑھی تو ضروریات بھی بڑھیں۔ دیوار پھلانگنا مسلئے کا پا ئیدار حل نہ ٹھہرا، تو انہوں نے چین کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا۔

بس پھر دیوار کسی کام نہ آئی۔ نہ صرف چین فتح ہوا بلکہ منگولوں نے چند ہی سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کر لی۔ جنگ لڑنا ان کے لئے کھیل بن گیا۔ اگر دولت میں دلچسپی ہوتی تو چین کے بعد ہندوستان کو فتح کرتے کیونکہ اس زمانے میں یہ دونوں ہی دنیا کی سب سے بڑی معشیتیں تھیں۔ شاید ہندوستانیوں کی گردنیں انگریز وں کی غلامی کے طوق کی منتظر تھیں۔ منگول ہندوستان سے چوک گئے۔ ہمارے حصے میں ان کے ان کی ہی نسل سے بھٹکے مغل آئے اور پھر انگریز بہادر۔ یہ ساری تاریخی بحث ہے۔ اب تو آزاد ہوئے بھی ستر برس بیت گئے۔ اور ہندوستان پھر دنیا کی بڑی معشیت بن چکا ہے۔ جی ڈی پی کے اعتبار سے یہ چھویں نمبر پے ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق ہندوستانی معشیت کی شرح نمو اس سال بھی آٹھ فیصد سے زیادہ رہے گی اور مجموعی ملکی پیداوار دس کھرب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ مجموعی ملکی پیداوار کو انگریزی میں مختصراً GDP لکھتے ہیں۔ یہ کسی ملک کی معشیت کے حجم کو ظاہر کرتا ہے۔

ہندوستان رقبے اور آبادی میں پاکستان سے تقریباً بلترتیب چار اور چھے گنا بڑا ہے لیکن اس سال ہم سے جی ڈی پی میں بتیس گنا بڑا ہو جائے گا۔ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا اور جاپان تک کسی بھی ملک کے بازار میں گھس جائیں ہر دوسری شیلف پے “ میڈ ان انڈیا“ ہمارا منہ چڑاتا ہے۔ اس کی ترقی کے بہت سے محرکات ہیں۔ یہ ہم سے بہت آگے سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ موازنہ کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ سوائے اس کے کہ ہم گائے ذبح کر لیتے ہیں اور ہندوستان کے مقابلے میں ہم نے اپنی اوقات سے کہیں بڑی فوج کھڑی کی ہے ہمارے پاس دل کو تسلی دینے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں بھی وقت گزر رہا تھا لیکن جو اس ہفتے ہوا ہے وہ ناقابل برادشت ہے۔

ہمارے وزیر اعظم نے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ پہل کی، انہیں خط لکھا۔ انہوں نے بات تک کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک زمانہ تھا جب وہ ہم سے مذاکرات کرنے چل کر بھی آتے تھے۔ کبھی بس لاتے کبھی ریل لاتے۔ کبھی دوستی کرتے۔ پھر ایک مرتبہ انہوں نے سمجھوتا بھی کرنا چاہا۔ یہ مودی تین سال پہلے بن بلائے بھی آ گیا تھا۔ ایسا کیا ہوا اب دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی ایک تیسرے ملک میں نہیں مل سکتے۔

یہ خیال دل کو کھائے جا رہا تھا۔ بالاخر ہم نے ایک ہندوستانی کو چھیڑ ہی لیا۔ وہ بولے ”بھائی دیکھو، ہم آپ سے باتیں کر کر کے تنگ آ چکے ہیں۔ جب بھی ہم بات کرتے ہیں، کوئی اجمل قصاب آدھمکتا ہے، کوئی پٹھانکوٹ پے ٹوٹ پڑتا ہے ہم پھر بھی آپ کے گھر تک جاتے ہیں چل کر بن بلائے لیکن ہے کوئی جسے یہ سب پسند نہیں ہے کوئی جو اڑی پے چڑھ دوڑتا ہے۔ صاب ایسے میں اب کیا بات کریں۔ کشمیر ہمارے کنڑول میں ہے۔ اب پہلے والی بات نہیں۔ ویسے بھی مودی جی کا الیکشن کا سال ہے۔ آپ نے ابھی تازہ ہی الیکشن دیکھا ہے۔ اگر آپ ہمیں دشمن دکھا کر ووٹ لے سکتے ہیں تو اس دشمنی پر ہمارا حق نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد دیکھیں گے اگر بات کرنی بھی ہوئی تو اس سے کریں گے جو ہمیں وزیراعظم لگتا ہے۔ آپ کو ویسے بہت اچھے وزیراعظم ضرور مل گئے ہیں۔ کم سے کم اپنی کرکٹ ہی ٹھیک کر لو یار۔ لگتا ہے اب آپ ہمیں کرکٹ میں بھی نہیں ہرا پاؤ گے“۔

مجبوری اور خوف کے ہاتھوں بہت سے لوگ خلا میں نہیں جا سکتے۔ لیکن آج آپ سائنس کی بدولت زمین پے بیٹھے ہی خلا سے زمین کے نظارے کر سکتے ہیں۔ اب آلودگی کے باعث خلا سے دیوار چین اتنی نظر نہیں آتی جتنا ہندوستان اور پاکستان کا فرق نظر آتا ہے۔ بہت واضح، کافی گہرا اور پریشان کن۔ یہ سب دیکھ کے کیا آپ کو کچھ کچھ ہوتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).