کٹھ پتلی حکومتوں کی خارجہ پالیسی میں کوئی ساکھ نہیں ہوتی


اپوزیشن میں رہ کر جذباتی قسم کی باتیں اور بچگانہ حرکتیں کر کے ایک برین واش نسل کو اپنا مرید بنانا بے حد آسان کام ہے جبکہ حکومت میں آ کر پوری دنیا کو بیوقوف بنانا ایک ناممکن کام ہے۔ دھیرے دھیرے یہ حقیقت عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف پر آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کو حکومت میں آئے ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جس دن اس جماعت نے اپنا تمسخر اڑوانے میں کوئی کمی چھوڑی ہو۔

امریکی سیکرٹر آف سٹیٹ مائک پومپیو کی فون کال کا تنازعہ ہو یا فرانسیسی صدر کی کال کو مسترد کرنے کی بات، چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری دوارے متنازعہ بیانات ہوں یا سعودی عرب یمن تنازعے میں فریق نہ بننے کی حکمت عملی سے یو ٹرن لیتے ہوئے سعودی عرب کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہر محاذ پر تحریک انصاف کی حکومت اپنی غیر دانشمندانہ حکمت عملیوں کے باعث مملکت پاکستان کا تمسخر بناتی نظر آتی ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو بدترین دشمن اور نواز شریف کو مودی کا یار قرار دینے والے عمران خان نے تو نریندر مودی سے بھی خوب بے عزتی کروا ڈالی۔

نریندر مودی کو پہلے خط لکھ کر مذاکرات کی درخواست کرنا اور پاکستانی ہندوستانی وزرائے خارجہ کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ملاقات کی عرضی کے بعد عمران خان کو لگا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان کے اندھے ہیروکاروں کی طرح اس عرضی کو دیکھ کر ان کے گرویدہ ہو جائیں گے اور بھاگے بھاگے آ کر عمران خان صاحب کی تجاویز سے متفق ہونے میں ہی عافیت جانیں گے۔ لیکن کیا کیجئیے کہ بیرونی دنیا میں خارجہ پالیسیاں مرتب کرتے وقت زمینی حقائق کو دیکھا جاتا ہے اور ان کے تشکیل پانے میں رومان پروری یا جذبات کا عمل دخل نہیں ہوا کرتا ہے۔

مودی نے اپنے دفتر خارجہ کے ذریعے نہ صرف عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش کو رد کر دیا بلکہ دفتر خارجہ کے ایک معمولی سے اہلکار کے ذریعے عمران خان کو یہ بھی کہہ ڈالا کہ ان کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے سفارتکاری کی دنیا میں شدید ترین مخالفت کے باوجود آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور نرم الفاظ میں کسی بھی پیش کش کو مسترد کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بھارتی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں نہ صرف انتہائی سخت اور نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا بلکہ پاکستان کے وزیراعظم کو بھی سیدھا سیدھا تنقید کا نشانہ بنا دیا گیا۔

عمران خان کا اصل چہرہ سامنے آنے کے بیان سے مراد ان کے یو ٹرن اور ان کی بطور کٹھ پتلی وزیراعظم کی حیثیت پر ایک طنز ہے۔ یقینا بھارت کو ان الفاظ کا چناؤ نہیں کرنا چائیے تھا لیکن ہماری مقتدر قوتوں اور خود عمران خان کو بھی اس امر کا ادراک ہونا چائیے تھا کہ دنیا اب فریکچرڈ یا ہائی جیک مینڈیٹ کے نتیجے میں آنے والی پس پشت قوتوں کی کٹھ پتلیوں سے نہ تو مذاکرات میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی کنٹرولڈ جمہوریت کے ذریعے اب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جس تذلیل اور سبکی کا سامنا تحریک انصاف کی نئی نویلی کٹھ پتلی حکومت کو کرنا پڑا ہے شاید ہی کسی اور منتخب حکومت کو اس کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اندرون ملک اپنی خفت مٹانے اور اپنے مریدین کو خوش فہمیوں میں مبتلا رکھنے کے لئے عمران خان یا تحریک انصاف جتنی مرضی صفائیاں پیش کریں اور دل خوش فہم کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کریں لیکن درحقیقت بات صاف عیاں ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کی بیساکھیوں کی مدد سے عوامی مینڈیٹ پر شب خون مار کر اقتدار میں آنے والی جماعت نہ تو داخلی اور خارجی محاذوں پر ڈکٹیشن لینے سے انکار کر سکتی ہے، نہ ہی اپنے مرضی کے فیصلے کر سکتی ہے اور نہ ہی دنیا بھر میں اپنی حیثیت منوا سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چینی صدر حکومت کے بجائے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں نظر آتا ہے اور سعودی عرب کے بادشاہ پہلے ہی دفاعی قوتوں سے معاملات طے کرنے کے بعد عمران خان کو تصاویر کھنچوانے اور امداد دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی عرب کی پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری میں شرکت اور پاکستان کا یمن کی جنگ میں سعودی عرب کا فریق بننے سے ہمیں امداد کی بھیک تو مل گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی چین، ایران اور روس کے ساتھ معاملات بگڑ بھی چکے ہیں۔

اسے ایک طرح سے نئی سرد جنگ کا آغاز بھی قرار دیا جا سکتا ہے جہاں ایک جانب امریکہ، برطانیہ، سعودی عدب اور خلیجی طاقتوں کے اشتراک پر مبنی بلاک ہے تو دوسری جانب چین، روس اور ایران پر مبنی ایک بلاک۔ ایسے میں پاکستان کا اسی گھسی پٹی حکمت عملی کو دوبارہ اپناتے ہوئے نیو یارک اور ریاض کے ساتھ کھڑے ہونا مستقبل قریب میں وطن عزیز کے لئے کسی بھی نیک شگون کا باعث نہیں بنے گا۔

ان حالات میں ایک ایسی جکومت جس کے پاس سوائے عوام پر ٹیکس لگانے کے اور کوئی معاشی پالیسی اور ویژن موجود نہیں ہے اور جو خارجہ محاذ پر سر جھکا کر ڈکٹیشن لیتے ہوئے کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے اس کے لئے یہ ناممکن ہو گا کہ وہ پاکستان کو اندرونی و خارجی محاذوں پر موجود آزمائشوں سے نکال پائے۔ جس حکومت کا سارا زور سرکاری عمارات کو کرائے پر دینے یا وزیر اعظم ہاوس کی پرانی گاڑیاں اور بھینسیں بھیچ کر اپنے مریدین سے داد و تحسین بٹورنے پر صرف ہو اس سے کسی بھی قسم کے سنجیدہ معاملات اور مسائل کے حل کی توقع کرنا ایک خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

اصل امتحان مقتدر قوتوں کا ہے جنہوں نے شب و روز کے پراہیگینڈے اور سازشوں کے بعد جمہوریت کو غیر مستحکم کرتے ہوئے صادق سنجرانی اور عمران خان جیسے مہروں کو فریکچرڈ مینڈیٹ کے دم پر اقتدار دلوایا ہے۔ اندرون ملک تو سینسر شپ عائد کر کے یا سزائیں سنا کر حقائق کو دبایا جا سکتا ہے لیکن بیرونی دنیا میں حقائق اور سچائی پر قدغنیں نہیں عائد کی جا سکتی ہیں۔ اب نہ تو ”مودی کا یار“ نواز شریف برسر اقتدار ہے اور نہ ہی غداروں کے ٹولے پر مشتمل حکومت موجود ہے۔ لیکن پھر بھی کبھی امریکی صدر ٹرمپ سے ڈو مور کی جھڑکیاں اور امداد کی بندش کے باوجود امریکی خوشنودی حاصل کرنے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو امن و محبت کے پیغامات بھیج کر جواب میں سبکی کروانے کا عمل تیز رفتاری سے جاری ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ خارجہ پالیسی ”محفوظ ہاتھوں“ میں آنے کے بعد کیا ہم تیزی سے دنیا بھر میں اپنے تعلقات کو بہتر بنا پائیں گے یا پھر مزید تنہائی اور سبکی کا شکار ہو کر اسی طرح روز و شب اہنا تماشا بنواتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).