ریڈیو بیچ رہے ہیں یا بھارتی یلغار کا راستہ صاف کر رہے ہیں؟


بھینسوں اور کاروں کی نیلامی تک بات ٹھیک تھی مگر قومی اداروں کی بربادی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ فواد چودھری صاحب نے فرمان جاری کیا ہے کہ ریڈیو پاکستان کی اسلام آباد میں واقع سات منزلہ عمارت ٹھیکے پر دی جا رہی ہے۔ اس ٹھیکے سے موصول ہونے والی رقم سے ایک نئی میڈیا یونیورسٹی بنائی جائے گی جس سے میڈیا کے کئی نئے افلاطون اور ارسطو جنم لیں گے۔ جن کی آمد سے پاکستانی میڈیا وائس آف امریکہ اور بی بی سی کی چھٹی کرا دے گا۔ افریقہ، ایشیا اور یورپ کے طالب علم دھڑا دھڑ اس نئی درس گاہ میں داخلے کے لئے قطار در قطار کھڑے ہوں گے۔ ملک میں موجود سینکڑوں یونیورسٹیاں جو مہنگے داموں میڈیا کی تعلیم دے رہی ہیں وہ منہ دیکھتی رہ جائیں گی کہ ہم اب تک کیا گھاس چرا رہے تھے؟

فواد چودھری صاحب، تحریک انصاف کا نعرہ تھا کہ بنیادی ضروریات کی فراہمی سے آغاز کیا جائے گا مگر آپ نے ملک کی بنیادیں ہلانے سے کام شروع کر دیا ہے کیونکہ قومی و ریاستی اداروں کو بیچنا ملک کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر سال پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے جو ہزاروں طالب علم میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے دربدر پھر رہے ہیں، کیا اُ ن کی ملازمتوں کابندوبست کر لیا گیا جو اب نئی میڈیا یونیورسٹی بنانے چلے ہیں۔

کیا پاکستانی میڈیا اتنا وسیع ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں اس کی پیشہ وارانہ افرادی ضروریات کو پورا نہیں کر پا رہیں جو ایک نئی یونیورسٹی بنانے کی اشد ضرورت محسوس ہو ئی، اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا قومی ادارے کی عمارت کو ٹھیکے پر دے کر آپ ایک نئی سرکاری یونیورسٹی بنانے چلے ہیں یا پھر نجی یونیورسٹی؟ اگر سرکاری یونیورسٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پہلے سے موجود سرکاری درس گاہوں کے حالات کا جائزہ لے لیں۔ اور اگر نجی کا ارادہ ہے تو طالب علموں کا خون چوسنے کے لئے کیا ملک میں پرائیویٹ اداروں کی کمی واقع ہو گئی ہے؟

پاکستان اور ریڈیو پاکستان کا سفر ایک ساتھ شروع ہوا۔ ان بیتے ستر سالوں میں ریڈیو پاکستان نے پاکستان کو کئی صداکار، فنکار، گلوکار، موسیقار، اداکار، رائٹرز اور تخلیق کار دیے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے تراشے لوگ آج بھی ملک کی پہچان ہیں۔ یہ ادارہ کسی یونیورسٹی سے کم نہیں بلکہ اگر سنجیدگی سے ریڈیو پاکستان کی تاریخ لکھی جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ماں کی آغوش کی طرح اس ادارے نے برسوں ذہنوں کی آبیاری کی ہے۔ ملکی معاملات اور قومی مفادات کے لئے رائے سازی اور ذہن سازی میں اپنی خدمات دی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہر حکومت نے اس اہم ادارے کو نظر انداز کیا ہے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ پہلے سے موجود تاریخی ادارے کو تباہ کر کے نیا ادارہ بنایا جائے۔

ریڈیو آج بھی دنیا بھر میں پروپیگینڈے کا موثر ذریعہ مانا جاتا ہے اوراس کی مثالیں بی بی سی، وائس آف امریکہ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، ڈاوچے ویلی اور ریڈیو ماسکو ہیں۔ اگر ریڈیو بقول فواد چودھری غیر ضروری چیز ہے تو ترقی یافتہ قومیں کب سے اس میڈیم سے جان چھڑا چکی ہوتیں۔ ریڈیو پاکستان ایک لمبے عرصے سے حکومتوں کی عدم دلچسپی اور عدم توجہی کا شکار ہے۔ ہر آنے والی حکومت نے اس ادارے اور اس سے وابستہ افراد کو مزید غیر یقینی صورت حال کی جانب دھیکیلا ہے اور نوبت اس کے صدر دفتر کی عمارت بیچنے تک آن پہنچی ہے۔ ان دگرگوں حالات میں بھی اس ادارے سے جڑے افراد اور تخلیق کار اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کا اندازہ 19 ستمبر2018ء کو بھارتی اخبار دی ٹربیؤن میں شائع ہونے والی ایک خبر سے کیا جاسکتا ہے کہ جس کی سرخی ہے۔ ؛

“Govt plans FM channel to counter Radio Pakistan“ اس خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ بھارتی سرکار ایک انتہائی طاقتور ایف ایم چینل۔ دیس پنجاب کے نام سے کھول رہی ہے جس کا مقصد ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام پنجابی دربار کا مقابلہ کرنا اور بھرپور جواب دینا ہے۔ بھارتی ایف ایم کا ٹارگٹ ایریا لاہور، سیالکوٹ اور گرجرنوالہ کے شہری ہیں۔ فواد صاحب آپ شوق سے میڈیا یونیورسٹی بنائیں صرف یہ بتا دیں کہ بھارتی پروپیگینڈے کے جواب میں آپ کی کیا حکمت عملی ہے۔ یہ وقت ریڈیو جیسے ادارے کو مستحکم اور مضبوط کرنے کا ہے نہ کہ اس کی بنیادیں ہلانے کا۔

مخدوش اور کمزور حالات میں بھی اس ادارے کا ایک پروگرام بھارتی پالیسی سازوں کو پاکستانی سرحد پر نئے ایف ایم ٹرانسمیٹرز نصب کرنے پر مجبور کررہا ہے اور آپ بجائے نئے ٹرانسمیٹرز لگانے کے اوراس ادارے کے معاشی مسائل حل کرنے کے، ورکرز کے اندر مزید بددلی پیدا کررہے ہیں اور اُن کو سڑکوں پر لا رہے ہیں۔ یہ وقت اداروں کو مضبوط کرنے کا ہے۔ پیداواری صلاحیتیں بڑھانے کا ہے۔

تاریخی ادارے دنوں میں نہیں بنتے، اُنہیں بنانے میں افراد کی زندگیاں کھپ جاتی ہیں۔ ان اداروں کے بارے میں فیصلے کرنے سے پہلے سو نہیں ہزار بار سوچنا چاہیے۔ ہر قومی ادارے کا کام منافع کمانا نہیں ہوتا، کچھ ادارے نسلوں اور شخصیات کی آبیاری کرتے ہیں، قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور حکومتیں ان کی سر پرستی کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).