لان کے جوڑوں اور محرم کے تقدس پر سیل لگ گئی ہے


بھولا نہیں میں آج بھی آداب جوانی
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا

قتیل شفائی 2001 میں وفات پا چکے لیکن اس شعر میں جو کہہ گئے وہ دراصل آج کل کے سوشل میڈیائی دور سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔

میں کم ہی کسی کو نصیحت کرتی ہوں کہ ایک تو ابھی نصیحت والی عمر کو نہیں پہنچی۔ دوسرے، اگر عمر کو کچھ دیر کے لئے دیوار سے لگا کر کسی کو اقوال ماہ وش زریں سنانا بھی چاہوں تو وہ ایسے ادھر ادھر دیکھتا ہے جیسے بچپن میں ہم کلاس ٹیچر کے سوال پر دو تین ماہ کے نونہال کی طرح غوں غاں کرنا شروع کر دیتے تھے۔ اور سچی بات ہے آج کل ہے کس کے پاس فرصت کہ ایک دوسرے کے منہ کی فائرنگ سے خود کو چھلنی کرے؟ بشرطیکہ وہ نصیحت فیس بک پر اشفاق احمد مرحوم کے نام پر بنے پیج کے لئے معاشرے میں اچھائی پھیلانے کی غرض سے آگے شئیر کرنے کی تاکید کے ساتھ لگائی گئی ہو۔ ہاں اس وقت تو دقیانوسی سے دقیانوسی اور جدید سے جدید ترین نصیحت بھی دبا دب شئیر کی جائے گی اور اسے اپنی فیس بکی ٹائم لائن کی زینت بنا کر اپنے اعلی کردار کا پرچار انتہائی دبدبے سے کیا جائے گا گویا ہم ہی اس عظیم اخلاق کے موجد ہیں نعوذ با اللہ۔

ایسا لگتا ہے کہ جیسے ساری اخلاقیات اب آن لائن ہی رہ گئی ہیں۔ جب کہ بد اخلاقیات کی فائل ہماری زندگی میں فل اسپیڈ پر ڈاؤن لوڈ ہو چکی ہیں۔ آن لائن سے یاد آیا 6 ستمبر کو یوم دفاع کے حوالے سے ہر برانڈڈ زنانہ ملبوسات کے اسٹور پر سیل لگی ہوئی تھی۔ ہمیں ایک مشہور برانڈ کی ای۔ میل موصول ہوئی جس میں یوم۔ دفع سیل کا عنوان دیکھ کر آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ (ای۔ میل کا اسکرین شاٹ ساتھ لگا ہے) مبادا آپ سمجھیں کہ چول کی غرض سے لکھ دیا ہے۔

اسلام کی حرمت، اخلاقی اقدار، تحمل اور برداشت، رواداری وغیرہ سے اب کتابوں کی حد تک ہی رشتہ ہے وہ بھی پرانے لوگوں کا جنھیں آج کل کی زبان میں ”اولڈ اسکول“ کیا جاتا ہے۔ باقی تو آج کل کے کسی مائی کے لعل سے آپ پوچھ لیں ”بیٹا ذرا بات سنو! کربلا میں کیا ہوا تھا؟ “ تو جواب آپ خود ہی سن کر لاجواب ہو جائیں گے۔

مجھے اپنے بچپن کا عاشورہ یاد ہے کوئی دس گیارہ سال عمر تھی۔ صبح ہی دادی نے اٹھا دیا۔ خود تو ان کا روزہ ہوتا تھا۔ ہمیں ناشتے سے فارغ ہو کر بڑے کمرے میں آنے کا کہا۔ مجھے اسی وقت عجیب سی بے چینی شروع ہوجاتی تھی۔ معلوم ہو جاتا تھا کہ دس محرم ہے تو ہر سال کی طرح اب الماری کے اوپر سے بڑا والا جزدان منگوایا جائے گا۔ اس میں سے تقریباً ضعیف کتابوں میں سے ایک بغیر جلد والی کتاب نکلوائی جائے گی اور کہا جائے گا چلو پڑھنا شروع کرو۔ دادی کو پڑھنا تو آتا تھا لیکن مقصد تو ہمیں پڑھوانا تھا۔ اب پڑھنا شروع کیا تو شروع کے اشعار بالکل سمجھ نہیں آئے۔

حسین رضا، کربلا، یزید اور اس کے علاوہ کچھ فارسی کے لفظ۔ بہر حال ہم پڑھتے رہتے آدھا سمجھتے آدھا اوپر سے گزرتا۔ ساتھ ساتھ دادی کچھ کا مطلب بتاتی جاتیں۔ سات محرم والا صفحہ آجاتا اور دادی کے آنسو رواں ہو جاتے۔ ہم پڑھتے پڑھتے ہچکچانا شروع کر دیتے۔ دادی پڑھو شاباش کہہ کر ہمت بندھاتی رہتیں۔ دس محرم آجاتا۔ امام حسین (رض) شہید ہو جاتے۔ میں ہمیشہ یہی سوال کرتی کہ ایسا کیوں ہوا؟ اللہ تعالی تو امام حسین (رض) کا سر کٹنے سے رکوا سکتے تھے؟ دادی کیا جواب دیتی تھیں وہ یاد نہیں لیکن جواب مل چکا ہے وقت کے ساتھ ساتھ۔ بہر حال ظہر ہو جاتی تھی کربلا کا واقعہ پڑھتے پڑھاتے۔

دادی ظہر کے بعد کچھ نوافل اور دعائے عاشورہ پڑھنے کی تلقین کرتیں۔ خود لمبی دعا میں مگن ہو جاتیں اور ہم ادھر ادھر دھیان بٹانے لگتے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کربلا کی وہ کتاب پڑھنے کے بعد دن عام سا گزر جائے۔ طبیعت بوجھل سی رہتی تھی سارا دن۔ وضو کرتے ہوئے بہتے پانی کو دیکھ کر کربلا کے معصوم پیاسوں کا خیال آجاتا تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے کربلا والوں کی بھوک دماغ کی دیواروں سے ٹکریں مارتی۔ نماز میں سجدہ کرتے ہوئے امام حسین رضہ کا سجدے میں شہید ہونا یاد آتا۔ یہ میرے بچپن کا محرم تھا آج کا نہیں۔ آج کا محرم کالے ڈیزائنر جوڑوں کی نئی کلیکشن ہے۔ آج کا محرم رات بھر حلیم کی دیگ کے گرد بیٹھ کر موبائل پر بنا خود پڑھے صدقہ جاریہ کے میسیجز فارورڈ کرنا ہے۔

اب سب کچھ کمرشل ہو گیا ہے لیکن کمرشلزم کی مد میں آپ اسلامی تاریخ کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ سال کے دوسری تمام مواقع پر لگائی گئی سیل کافی نہیں تھیں کہ اب محرم کے لئے کالے جوڑے بھی ڈیزائینر ملیں گے اور سیزن کلیکشن کہہ کر بیچے جائیں گے؟ پھر میں سوچتی ہوں سارا قصور ان بڑے ناموں کا نہیں لوگ بھی برابر کے شریک ہیں اس اندھا دھند دوڑ میں۔ عوام ڈھکے چھپے الفاظ میں تو اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ پریکٹیس غلط ہے لیکن کانا مجھے بھائے نہ کانے بنا چین آئے نہ کے مصداق کرنا بھی وہی ہے جو زمانے کا چلن بنتا دکھ رہا ہے۔ دیکھئے اب یہ زمانے کے بدلتے انداز کس ڈگر لے جاتے ہیں ہمیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).