صحافتی چاپلوسی



آج کے دور میں کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایک اچھا صحافی معاشرے کی آنکھیں ہوتا ہے۔ معاشرے کے اندر موجود خوبیوں اور خامیوں اور اخلاقیات ان سب پر صحافی کی ہر وقت نظر ہوتی ہے اور وہ ان سب معاشرتی تبدیلیوں کو اپنے قلم کے ذریعے ہائی لائیٹ کرنا، بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ آج کل کے دور میں سوشل میڈیا پر آنے والی معلومات اور خبروں (سچی یا جھوٹی) کے ماحول میں اپنی بات کو منوانا، بات میں وزن پیدا کرنا، غیر جانب دارانہ تجزیہ بیان کرنا، بہت زیادہ مشکل کے ساتھ ساتھ ضروری بھی ہو گیا ہے۔ تھوڑی سی بھی اونچ نیچ ہو جائے سوشل میڈیا کے حضرات لٹھ لے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

آئیڈیل معاشرے کے لیے کچھ چیزیں رکاوٹ سمجھی جاتی ہیں، جیسا کہ چوری بے ایمانی رشوت کرپشن اور اس طرح کی دوسری برائیاں۔ ان سب برائیوں اور کوتاہیوں سے معاشرہ کو پاک کرنے کے لیے اگر حکومتی ادارے اور افراد کی اجتماعی محنت اور لگن کی ضرورت ہے تو معاشرے کے آنکھ کے طور پر ایک صحافی کا کردار سب سے بڑھ کر ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک صحافی اپنے قلم سے ارد گرد ہونے والی خامیوں پر نظر رکھے اور اپنے غیر جانب دارانہ تحریروں تجزیوں سے مثالی معاشرے کے لیے کردار ادا کرے۔

پاکستان میں بد قسمتی سے اکثر و بیش تر ادارے اخلاقی اور فلاحی طور پر زوال پذیری کی طرف گام زن ہیں۔ نہایت دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی ہی زوال کی پوزیشن صحافت میں بھی نظر آتی ہے۔ جس طرح ایک قابل ڈاکٹر دُرست تشخیص سے مرض کا پتا چلا کے مریض کو شفایاب کر دیتا ہے۔ ایک اچھا انجنیئر اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کر کے اچھی اور پائیدار عمارت کھڑی کر سکتا ہے۔ ایک بہترین ڈاکٹر اور انجینیئر بننے کے لیے بہت زیادہ مشکل تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تجربہ اپنے شعبے سے لگن اور کمال دست رس حاصل کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح ایک اچھے صحافی کے لیے اپنے شعبے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ مطالعہ، حالات حاضرہ سے آگہی اور واقعات کی غیر جانب دارنہ دُرست اور مکمل تجزیہ کا حامل ہونا نہایت ضروری ہے۔

بدقسمتی ملاحظہ ہو کے بجائے معاشرتی اخلاقی زوال پذیری کے اس ماحول میں ایک صحافی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے معاشرتی برائیوں اور منفی باتوں کے خلاف اپنے قلم کو استعمال کرتا اور برائیوں کے خلاف دیوار بن کر اپنا کردار ادا کرتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت ان میں سے بجائے ایک غیر جانب دار اور معاشرے کی آنکھیں ہونے کے ایک طرح سے بھانڈ کے کردار میں نظر آتے ہیں۔

دُکھ ہوتا ہے جب ایک صحافی کے لکھے ہوئے ادارتی صفحات، کالم رپورٹ اور بلاگ معاشرتی مسائل سیاسی تجزیہ نگاری غیر جانب دارنہ خیالات کے بجائے شخصیت پرستی اور خوشامد میں گھِری رہتی ہیں۔ اور ہر جملہ گویا “مولا خوش رکھے”، “بھاگ لگے رہین” کی طرح کا نظر آتا ہے۔ سیاسی لیڈروں، وزیروں مشیروں اور کچھ تو اداروں تک خوام خواہ کے ترجمان اور خوشامدی بن جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی کے حق میں اور دوسرے لیڈر کی مخالفت میں صحافی حضرات خوشامد اور چاہلوسی میں، اس طرح مخالفت جس طرح شکوہ جواب شکوہ ٹائپ چیزیں لکھتے ہیں، تو گھِن آتی ہے۔

کچھ حضرات کی تو  لے ہی اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ فلاں سیاسی لیڈر کے جہاز کی سواری میں تھا تو انھوں نے یہ تاریخی باتیں فرمائیں ہیلی کاپٹر میں یہ مسائل بتائے، گھر کھانے پہ بلایا کیا ڈِش تھی سے لے کر سب جگالی فرما دینا اور پھر شخصیت پرستی کو لے کے گویا “چمن میں دیدہ ور پیدا” کی بانس پر چڑھا دینا۔

ہمارے چند صحافی محترم تو روزی روٹی اور چاپلوسی کے لیے کچھ لیڈروں کو سیاسی رہ نما کم اور اللہ کے ولی نیک بندہ زیادہ، بلکہ بس نہیں چلتا ان کو جیتے جی رحمتہ اللہ علیہ تک لے جائیں۔ اپنے قلم کی جولانی میں اتنا مست ہو جاتے ہیں کہ و ہ وہ خوبیاں بیان فرمائی جاتی ہیں کہ لیڈر خود حیران ہو جاتے ہیں؛ سوچتے ہوں گے کہ “اچھا اے میں آں”؟ کچھ تو ماشا اللّہ ایسے بھی ہیں کہ ایک مصرع میں، ایک شخصیت کی خامی بتا کے پھر پوری غزل میں مخالف کے لتے لیے جاتے ہیں۔ تا کہ کہا جاسکے کہ جناب ہم تو غیر جانب دارنہ رائے کے قائل ہیں۔

ہماری تو صرف اتنی گزارش ہے کہ اگر آپ کو کوئی جماعت اس کا لیڈر اس کا منشور اس کا وژن اچھا لگتا ہے، تو لوگوں کو تبلیغ کرنے اپنی چاپلوسی اور خدمت کو غیر جانب داری تجزیہ نگاری کو صحافت اور معاشرے کی خدمت کا نام دینے قلم فروشی چھوڑیں۔ اپنی پسندیدہ جماعت میں شامل ہوں۔ سیاسی رہ نما کے جہازوں میں گھومیں۔ ان کو قائد اعظم رحمتہ اللہ کہیں۔ فاطمہ جناح کہیں۔ بھٹو ثانی کہیں۔ مہاتیر محمد کہیں۔ پھر بھلے خوش ہو کے آپ کو آپ کا وہ دیدہ ور رہ نما، مشیر بنائے؛ سفیر بنائے؛ چیرمین بنائے۔ پھر آپ پوری زندگی اپنے لیڈروں کے زریں خیالات کو بیان فرمائیں، کالے کوے کو سفید کہیں۔ بھاگ لگے رہین مولا خوش رکھے لیڈر دے ناں دی خیر ہووئے۔ جو دل کرے کہتے رہیں۔

براہ کرم کسی پرنٹ میڈیا میں لکھ کر اور الیکٹرانک میڈیا میں بول کے اس سب چاپلوسی کو صحافت کا نام نہ دیں۔ کچھ ٹکوں اور عارضی سہولیات کے عوض غلط کو دُرست اور دُرست کو غلط لکھنا گو اکثریت کے خیال سے قلم فروشی اور چاپلوسی ہے۔ ہمارے خیال میں کسی کا روپوں کے عوض اپنے جسم اور ناموس کا سودا کرنا کم معاشرتی برائی ہے، بہ نسبت اپنے قلم کو کسی کی خواہشات اور مرضی کے مطابق چلانا۔ اب کریں تو کیا کریں، حالات اس نہج پر آ پہنچے ہیں۔ جیسے بردار حسنین جمال فرماتے ہیں۔ کھنگدے جاو، لنگدے جاو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).