ملتان میں اردو بولنے والوں کی پہلی امام بارگاہ


میرے والد اپنے پورے خانوادے کے ساتھ تقسیم ِ ہند کے وقت ہندوستان کے ضلع گڑگائوں کی تحصیل پلول میں واقع رسول پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ ابو کی عمر اس وقت لگ بھگ دو سال تھی۔ اُن کے بزرگ ہندوستان میں زمینداری کرتے تھے اور اس لیے پاکستان آتے ہوئے بطور خاص  پنجاب آئے کہ یہاں زمینیں مل جائیں گی تو گزر بسر ہو جائے گا۔ ملتان میں پرانے وقتوں سے سرائیکی بولنے والے آباد تھے۔ جب میرے اجداد ہجرت کر کے ملتان آئے تو ظاہر ہے پہلا رمضان، پہلی عید اور پہلا محرم بھی دیار غیر میں دیکھا۔ رمضان کے لیے جائے نماز اور سحر و افطار کا اہتمام چاہیے ہوتا ہے، عید کے لیے شیر خورمہ لیکن محرم کے لیے عزاداروں کو امام بارگاہ چاہیے ہوتا ہے جہاں وہ دل کھول کر امام حسین ع کا غم کر سکیں۔

ابّو بتاتے ہیں کہ ملتان میں اردو بولنے والے بہت کم تھے اور اس لیے وہاں ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں اردو میں مجالس ہوتی ہوں۔ مہاجرین نے یہ فیصلہ کیا کہ اُن کا اپنا امام بارگاہ ہونا چاہیے جہاں اردو زبان میں مجالس منعقد کی جا سکیں۔ سب سے پہلا امام بارگاہ جو اردو بولنے والوں کا ملتان شہر میں بنا اُس کا نام حویلی مرید شاہ تھا لیکن ملتان کے مقامی لوگ اُس کو مہاجروں کا امام باڑہ کہنے لگے اور وہ اسی نام سے مشہور ہو گیا۔ اس امام بارگاہ کی تعمیر کچھ اس طرح سے ہوئی کہ مرید شاہ  صاحب جو کہ ملتان کے ایک سرائیکی سید تھے، انہوں  نے پاکستان بننے سے پہلے کچھ زمین ایک ہندو کو بیچ دی تھی اور جب پاکستان بنا تو وہ ہندو ہندوستان کو ہجرت کر گیا۔

رسول پور اور سلطان پور کے سادات ہندوستان سے ہجرت کر کے ملتان پہنچے تو اتے ہی انھوں نے مرید شاہ صاحب کی بیچی ہوئی زمین پر دعوی کر دیا اور کیس جیت گئے۔اصل میں  رسول پور کے مہاجرین  میں سید حسن علی صاحب کا ہندوستان میں اپنا امام بارگاہ تھا جس کے بدلے انھوں نے اس جگہ کا کلیم دائر کیا تا کہ جو امام بارگاہ وہاں چھوڑ ائے تھے اس کے بدلے میں یہاں مل سکے۔ اس جگہ ایک امام بارگاہ کی بنیاد رکھی گئی اور اُس کا نام حویلی مرید شاہ رکھا گیا۔ امام بارگاہ حویلی مرید شاہ اندرون بوہڑ گیٹ کے علاقے میں آج بھی واقع ہے جو کہ قلع کہنہ قاسم کا نواحی علاقہ بھی ہے۔ عام طور پر لوگ اس کو “شہر” کے نام سے جانتے ہیں۔ میرا اپنا سارا بچپن اسی امام بارگاہ میں مجالس سنتے گزرا ہے اور اس امام بارگاہ کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔

میرے والد ہجرت کے وقت طفلی کے سِن میں تھے تو انھیں یاد نہیں کہ اتے ہی رسول پور اور سلطان پور کے سادات نے اپنا پہلا محرم کس طرح کیا۔ جب انھوں نے ہوش سنبھالا تب کا بتاتے ہیں کہ علم پٹکے تو تھے نہیں البتہ دیوار پر چونے سے کچھ نقوش بنا لیے گئے تھے کہ جب علم بنیں گے تو یہاں نصب کیے جائیں گے۔

یقیناً شروع میں مہاجرین کے پاس مال و اسباب کی کمی کی وجہ سے محرم سادگی سے منایا گیا ہو گا۔ رسول پور سے بہت سے نقوی سادات ہجرت کر کے ملتان پہنچے تھے جن میں سے حسن علی صاحب اور پھر اُن کے صاحبزادے امیر عباس صاحب کا نام اُن لوگوں میں سَرِ فہرست تھا جنھوں نے دامے درمے قدمے سخنِے امام بارگاہ کے تعمیر اور انتظامات سنبھالنے میں فعال کردار ادا کیا اور یوں ملتان شہر میں اردو بولنے والوں کا پہلا امام بارگاہ اور مسجد تعمیر
ہو سکی۔ اُن کے خاندان کے لوگ آج بھی اسی طرح محرم کے انتظامات سنبھالتے ہیں۔

ابو بتاتے ہیں کہ دہلی اور لکھنئو سے انے والے مہاجر بالکل انیس و دبیر کی طرح عذاداری میں بھی اپنا اپنا آہنگ رکھتے تھے۔ اس بات کا اندازہ مجھے کینیڈا آ کر ہوا جب یہاں میں نے زیادہ تر کراچی والوں کے یہاں مجالس میں شرکت کی جن کے اجداد یو پی سے تعلق رکھتے تھے۔

یہاں آ کر پہلی بار علم ہوا کہ لکھنئو والے محرم کے احترام میں مچھلی نہیں کھاتے کیونکہ مچھلی اُن کے یہاں خوشی کا پکوان ہے۔ اس کے علاوہ جس طرح حویلی مرید شاہ میں شامِ غریباں کی مجلس ہوتی تھی ویسی یو پی والوں کے یہاں نہیں ہوتی تھی۔

میرے دادا کا گھر اندرون شاہ گردیز میں ہوا کرتا تھا اور میرے بچپن میں تمام رشتے دار محرم کی آٹھ تاریخ سے وہاں ڈیرا ڈال لیا کرتے تھے۔ بس پھر کیا ہوتا تھا ایک مجلس سے دوسری مجلس ہوتی تھی اور بیچ میں عزادار کچھ دیر سستانے کو میرے دادا کے گھر آ جایا کرتے تھے۔ ہم بچے تھے اس لیے بہت فخر کرتے تھے کہ عزاداروں کی خدمت کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بعد میں اردو بولنے والوں کا ایک اور امام بارگاہ بوہڑ گیٹ کے ہی علاقے میں وجود میں ایا جو چھوٹے امام بارگاہ کے نام سے مشہور ہوا لیکن اس کا اصل نام عزاخانہ فاطمہ تھا۔  یہ امام بارگاہ میری والدہ کے نانا مرحوم سید وزیرالحسن نقوی کا ہے۔ انھوں نے اپنے گھر کی زمین کو امام بارگاہ کے لیے وقف کیا اور پرانی عمارت گرا کر نئی عمارت تعمیر کروائی۔ اب اُن کی وفات کے بعد ان کے فرزندان سید ثمر حسنین نقوی اور سید سلیم اختر نقوی کا خانوادہ اُس امام بارگاہ کا انتظام سنبھالتا ہے۔

محرم کی عذاداری میں رسول پور کے سادات کا سب سے منفرد طریقہ روزِ عاشور کی فجر کی نماز سے پہلے ہونے والی مجلس تھی۔ ہم یہ مجلس سننے ضرور جاتے تھے کیونکہ اس مجلس کا ایک خاص ماحول ہوتا تھا۔ خواتین تو تنبو کے اِس طرف ہوتی تھیں، بس مردانے میں سے آواز آیا کرتی تھی۔ جنگِ کربلا فجر کی نماز کے وقت شروع ہوئی جب امام حسین ع کے صاحب زادے حضرت علی اکبر نے اذان ِ فجر دی تھی۔ اس واقع کی یاد رسول پور کے سادات اس طرح مناتے ہیں کہ فجر کی اذان سے قبل امام حسین ع پر گزرنے والی مصیبت بیان کی جاتی تھی اور اُس کے بعد فجر کی نماز ہوتی تھی۔ لیکن جنگ کا خاکہ کھینچنے کے لیے اذانِ فجر کے درمیان طبلِ جنگ بجایا جاتا تھا جیسا کہ اصل جنگِ کربلا میں عین فجر کی نماز کے وقت طبلِ جنگ بجایا گیا۔

یہ وہ خاندانی رواج تھا اور تاریخ تھی جو سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوئی۔ دوسری خصوصیت شامِ غریباں کی مجلس تھی جس میں عذاداروں کو باقاعدہ قطار میں بٹھایا جاتا تھا اور ایک خاص گروہ حضرتِ حُر کی زوجہ کی شبیہہ بنا کر خواتین اور بچوں کے تنبو میں اتا تھا جیسا کہ واقع کربلا کے بعد جب شامِ غریباں آئی تو حضرتِ حُر کی زوجہ نے آ کر امام حسین ع کے گھر کی خواتین کو پانی پلایا اور خوراک فراہم کی۔

یہ مجلس دل پر بہت گہرا اثر ڈالتی تھی کیونکہ اس مجلس میں دریاں نہیں بچھائی جاتی تھیں اور یہی رواج تھا کہ چونکہ غریبوں کی شام کی یاد ہے تو سب فرش پر بیٹھیں گے یہاں تک کہ کوئی دری بھی نہیں بچھائی جائے گی۔ اس علامتی دستے کے ہاتھوں میں مشعلیں ہوا کرتی تھیں اور سر پر تھال ہوا کرتے تھے جیسے ان میں خوراک ہو۔ وہ دستہ بالکل فوجی انداز میں خواتین کے تمبو سے ہو کر مردوں کے تنبو میں چلا جاتا اور عزادار اہلیبیت ع کی مصیبت اور غربت پر خوب گریہ کرتے۔

جب سے ملتان چھوٹا نہ اذانِ علی اکبر سنی نہ زوجہ حر کے دستے کی شبیہہ دیکھی۔ اب مجھے فخر ہوتا ہے کہ میں ایسی تہذیب سے وابستہ ہوں جہاں تاریخ کے واقعات کو اس قدر موثر انداز میں اگلی نسل کے حوالے کیا جاتا ہے کہ دماغ پر نقش ہو جائے۔

محرم میں حویلی مرید شاہ سب کے لیے کھلا رہتا تھا۔ جو چاہے آئے اور امام حسین ع کے غم میں شریک ہو جائے۔ اب ایسا نظر نہیں اتا۔ مذہبی شدت پسندی پھیلانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ قومیں صرف مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی مخصوص تہذیب اور ثقافت کی وجہ سے زندہ رہتی ہیں۔ جب یہ تہذیب اور ثقافت پر پہرہ لگا دیں گے تو قوم کو خطرہ خود بخود لاحق ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).