ارے بھائی۔۔۔۔ کچھ تو قائم رہنے دو!


ویسے تو پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے مگر ہمارے ملک میں عوام الناس کے لئے کوئی خاص تفریحی مراکز موجود نہیں ہیں۔ ہماری قوم کے لئے تفریح یہی ہے کہ کوئی فلم دیکھ لیں یا کسی جگہ بیٹھ کر کچھ کھا لیا جائے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دن بدن نت نئے ریسٹورنٹ اور کیفے کھل رہے ہیں مگر ہماری توجہ کسی اور چیز کی طرف آتی ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں چند ایک ہی عمارات موجود ہیں جو عوام کی تفریح کی زینت بنتی ہیں جیسے مزارِ قائد، مینارِ پاکستان، فیصل مسجد، عجائب گھر وغیرہ۔ بہت ہوگیا تو لوگ کبھی کبھار چھٹی کے روز بچوں کو چڑیا گھر لے جایا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ تو کوئی فیملی پارک ہیں نہ ہی انٹرٹینمنٹ یا ری کرئیشن کی کوئی جگہ۔

کاش ہمارے ملک میں سیاست اور ریاست سے ہٹ کر تفریح وسیاحت پر بھی بات کرنے کو کچھ موجود ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ یقیناً۔ جس ملک میں عوام کی تفریح کے لئے کچھ خاص نہ ہو وہاں پر ایسی خبر عوام کے لئے کسی خوشخبری سے کم نہیں۔ تبدیلی کی لہر میں ایک اور بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے عوام کے لئے چھٹی کے دن گورنر ہاؤس کھول دیا گیاہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار عوام کو ایسا ریلیف ملا ہے جہاں کبھی ان عمارات کے پاس سے گزرنے کا کوئی عام شہری تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اس کے برعکس اب تمام شہری چھٹی کے روز گورنر ہاؤس کی سیر کرسکیں گے۔ نہ صرف لاہور میں بلکہ ملک بھر میں گورنر ہاؤسسز کو چھٹی کے روز عام عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

یقیناً نئی حکومت کی جانب سے یہ ایک اچھا اقدام تھا۔ مگر جہاں حکومت نے چند اچھے فیصلے کیے وہیں نو منتخب حکومت کی جانب سے کیے گئے چند فیصلے جلد بازی کے غلط فیصلوں کے زمرے میں تصور کیے جا رہے ہیں۔ عوام تو اس فیصلے سے بہت خوش ہے مگر حکومتِ پاکستان کو اس فیصلے سے کافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ آج اتوار کا دن بھی لاہوریوں کی خوشی کا باعث رہا کیوں کہ شہری خوش گوار موسم میں عمارت کے کئی پہلووں کا جائزہ لیتے رہے اور بچوں نے بھی چڑھا گھر کی سیر کی مگر لوگوں کی بھاری بھرکم تعداد کی بدولت خوبصورتی کے طور پر بنایا گیا پل اتنا وزن برداشت نا کرسکا اور بل آخر ٹوٹ گیا۔ یہ کسی سڑک لا پل نہیں بلکہ لکڑی سے تعمیر کردہ گورنر ہاؤس کی جھیل کا ایک نازک پل تھا جو محض صرف خوبصورتی کے لئے تعمیر کیا گیا تھا مگر عوام کے سیلاب کی تاب نا لاتے آج دم توڑ گیا اور کافی لوگ جھیل میں پھسے رہے جنہیں بعد میں کشتیوں کے ذریعے باہر نکالا گیا۔

بیچاری انتظامیہ کبھی کوڑا کرکٹ سمیٹے تو کبھی عوام کے بچاوں کے لئے کوئی اور انتظام کرے۔ آخر کب تک؟
گورنر ہاؤس کو پہلی مرتبہ 14 ستمبر 2018 کو 3 روز کے لئے کھول دیا گیا۔ پہلے دن بیوروکریٹس کے لئے اور باقی دو دن عام عوام کے لئے کھولا گیا۔

اب تک لگ بھگ پچیس ہزار لوگ گورنر ہاؤس کا رخ کرچکے ہیں۔ اور انہوں نے اس کا برا حال کردیا ہے۔ جگہ جگہ کوڑا کرکٹ اور کھانے پینے کی اشیاء کی وجا سے کچرے کے دھیر لگا دیا ہے۔ یہاں تک کے وہاں لگے تمام پھول اور پھل توڑ ڈالے ہیں اور اس عمارت کی کوئی بھی جگہ اس کی اصل شکل میں نہیں رہی۔ گوارنر ہاؤس میں موجود گراونڈز اور خوبصورت کیا ریوں کا وہ حال کیا ہے جو کسے عام پارک یا گرونڈ کا بھی نہ ہو۔ یہاں تک کے کچے پھل تک نوچ ڈالے ہیں۔

ہمارے عوام روایتی عوام نہیں بلکہ ایک ہجوم ہے جسے بالکل بھی یہ جگہیں دیکھنے کی تمیز اور سلیقہ نہیں ہے اور ہوگا بھی کیسے جب ہمارے ملک میں عوام کے لئے تفریح کے مقامات کی عدم موجودگی ہے۔

اس 180 کنال کی پراپرٹی کے پاس سے گزرنے پر بھی پابندی تھی اور آج عوام نے اس کا حال کی برا کر ڈالا ہے۔ گندگی اور کچرے کے ڈھیروں کی وجہ سے گورنر ہاؤس انتظامیہ کی جانب سے سخت ہدایات جاری کی گئی تھیں کے گورنر ہاؤس میں کھانے پینے کی اشیاء لانا منع ہے! اس سے کیا ہی باز آنا تھا عوام نے تو بد نظمی کا وہ مظاہرہ کیا کے ہجوم کی بدولت گورنر ہاؤس کی خوبصورت جھیل کا پل ہی توڑ ڈالا۔

بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے پی ٹی آئی کی اعلی‘ قیادت کی جانب سے کیئے گئے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی کہ عام عوام کے لئے گورنر ہاؤس نہ کھولا جائے کیونکہ گورنر ہاؤس تو خاص مہمانوں کے لئے کھولا جاتا ہے جیسے کوئی دوسرے ملک سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات، امیگرینٹس یا کوئی اگر خاص طور پر گورنر پاکستان سے میٹنگ کے لئے آتا ہے۔ ایسے تمام لوگوں کو ہم نے ایک ایسا گھر دیکھانا ہوتا ہے جس میں ہمارے ملک کی شان و شوکت اور تہذیب نظر آئے مگر اگر عام لوگ یہاں پر آنا زشروع ہوجائیں گے تو اس عمارت کا اپنی اصلی حالت میں رہنا نا ممکن ہے۔

کاش کہ ہماری قوم میں تعلیم وتربیت کی کمی نہ ہوتی تو آج کم از کم ان جگوں پر جا کر تھوڑی تمیز کا مظاہرہ کرلیا جاتا۔ خیر افسوس اس قوم کو اس مقام تک لے جانے میں ابھی بہت عرصہ درکار ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں عوام کا دل بہلانے کے لئے قومی عمارات کھول تو دی ہیں مگر کوئی یہ پوچھے کہ آخر کب تک یہ فیصلہ برقرار رہے گا؟ کیوں کہ کچھ دنوں میں ہی گورنر ہاؤس کی عمارت کا وہ حال ہوگا کہ حکومت نے خود مجبور ہوکر اس اجازت نامے کو واپس لے لینا ہے۔ ظاہر ہے حکومت کو ہر حال میں ایسا کرنا ہی چاہیے۔

قومی عمارتوں سے ملازمین کی بڑی تعداد کو نکال کر نو منتخب حکومت نے نہ صرف اتنے لوگوں کو بے روزگار کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایسٹس کو تباہ کرنے کی بھی ٹھان لی ہے۔ ظاہر ہے جب 100 لوگوں کا کام 10 لوگ کریں گے تو اس کام کی کارکردگی بری طرح سے متاثر ہوگی۔ کچھ ایسا ہی حال عنقریب ان عمارات کا ہونے والا ہے۔ جب ان کی مینٹینینس اور صفائی کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو یہ جلد ہی اپنی خستہ حالت میں آجائیں گی اور ایک واضح فرق دیکھنے کو ملے گا۔ ان عمارات کی تعمیر کا مقصد توجیسے فوت ہی ہوئے گا۔ کیا ہم بیرونِ ممالک سے آنے والی اہم شخصیات اور سفیروں کو پاکستان کی یہ تصویر پیش کریں گے؟ کیا عالمی سطح پر ایسا برا تعصر پیش کرنا ضروری ہے؟

میرا خیال تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت جلد از جلد اپنا یہ فیصلہ واپس لے لے تاکہ ملک کے قیمتی اساسوں کو خراب ہونے سے بچایا جائے اور میری حکومتِ پاکستان سے یہ اپیل ہے کہ جیسے بلین ٹری منصوبہ متعارف کروایا گیا ہے ویسے ہی ملک بھر میں ایڈونچر پارکس یا فیملی پارکس قائم کیے جائیں جہاں پر مختلف قسم کی سپورٹس ایکٹیؤیٹیز کروائی جاہیں اور ان سرگرمیوں کے ہمراہ عوام کو پارکس استعمال کرنے کے اہم قوانین بتائے جائیں تاکہ ان کا بھی حال گورنر ہاؤس جیسا نہ ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).