نیا پاکستان اور مذہبی اقلیتیں


گزرے وقتوں کی بات ہے ایک گاوں میں پیر بخش نامی ایک شخص رہتا تھا پیر بخش پیشے کے لحاظ سے قریبی قصبے میں ادنی سی ملازمت کرتا تھا وہ اپنے پانچ بچوں اور بیوی کے ہمراہ اپنے دو کمروں کے مکان میں رہتا تھا اس کا مکان پورے گاوں میں سفید پردے کی وجہ سے مشہور تھا جو اس نے اپنے مکان کے مرکزی دروازے سے لگایا ہوا تھا، اس کا مکان اندر سے کیسا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا کیونکہ پیر بخش گاوں والوں سے میل ملاپ کم رکھتا تھا لیکن پورا گاوں پیر بخش کو اسکی ملازمت کی وجہ سے عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس کی پہچان گاوں میں ایک سفید پوش کی طور پر تھی۔ پھر اچانک ایک دن زور کا طوفان آیا، آندھی چلی گاؤں کے بہت سے کچے مکانات گر گئے، درخت اکھڑ گئے نظام زندگی درہم برہم ہوگیا گاوں کے باسی پریشانی کے عالم میں بھاگ رہے تھے اچانک ایک شخص کی نظر پیر بخش کے مکان پہ پڑی مکان تو سلامت تھا لیکن گھر کے مرکزی دروازے پہ لگا سفید رنگ کا پردہ ہٹ چکا تھا، گھر کے ٹوٹے برتن، بیوی بچوں کے پھٹے کپڑے ایک ٹوٹی چارپائی اور چند ٹوٹے زنگ آلودہ برتن پیر بخش کی غربت و افلاس کی تصویر کشی کر رہے تھے اور پیر بخش ایک کونے میں بیٹھا طوفان کو کوس رہا تھا جس نے اس کی اصلیت کا پول کھول دیا تھا۔

سفید رنگ تو ہمارے جھنڈے میں بھی موجود ہے جو کہ اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا عکاس ھے لیکن شاید پیر بخش کی طرح شاید ہم نے بھی اس سفید رنگ کے پیچھے ان کی غربت اور کسمپرسی چھپا رکھی ھے یہ وہی اقلیتیں ہیں جن کو جناب محترم قائداعظم نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں  برابری کا درجہ دیا، افسوس کہ آنے والی حکومتوں نے اس وعدے کو قصہ پارینہ بنا دیا۔

قیام پاکستان کے وقت مذہبی اقلیتیں ملک کا %39 فیصد تھیں لیکن وقت کی ستم ظریفی آج وہی %3 فیصد تک محدود ہو کر گئے ہیں (یہ اعداد و شمار  کسں حد تک درست ہیں یہ ایک الگ بحث ھے) لیکن اس کمی کی بہت سے وجوہات ہیں جن میں اقلیتوں  کے مسائل پر گزشتہ حکومتوں کی خاموشی اور ایوانوں میں ان کی نمائندگی کا نہ ہونا شامل ہیں۔

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتیجہ میں تشکیل پانے والی حکومت کو جہاں معاشی ،دفاع اور خارجہ پالیسی کے بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گئے ان میں سے ایک چلینج ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے تحفظ اور ان کو انکے بنیادی حقوق کی فراہمی بھی شامل ہو گا۔ اقلیتوں کو درپیش مسائل جن میں ان کیلئے انتخابی اصلاحات،  تعلیمی اور جاب کوٹہ پر عمل درآمد، نصاب میں موجودہ نفرت انگیز مواد کی تبدیلی اور اقلیتی ہیروز کو موجودہ نصاب میں جگہ دینا، اور سب سے بڑھ کر ان کو تحفظ اور برابری کا احساس دینا تاکہ وہ اس ملک کی تعمیر اور ترقی میں  بےلوث حصہ ڑالتے رہیں۔
کچھ حلقے گزشتہ انتخابات کے نتیجہ میں آنے والی تبدیلی کو خوش آئین قرار دے رہے ہیں لیکن اس حکومت کے لانگ ٹرم پلان یا پہلے سو روزہ پلان میں بھی مذہبی اقلیتوں کا تذکرہ تک شامل نہیں، اقلیتوں کیلئے حقیقی تبدیلی تب ہی آئے گی جب ان کو درپیش مسائل حل ہوں گئے۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 36 اقلیتوں کے حقوق کےتحفظ کی ضمانت دیتا ھے لیکن کونسی حکومت ان کو یہ ضمانت دے سکے گی، شاید اس کا جواب نئے پاکستان میں بھی کسی کے پاس نہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).