قریبی رشتہ داروں میں شادیاں اور موروثی بیماریاں، معذوری اور موت کی اہم وجہ


آپس میں شادی آخر کیوں؟ (عوامل)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شادیوں کے نتائج مثبت ہونے کے امکانات کم ہیں تو اس سلسلے کو جاری رکھنے کے کیا عوامل ہیں؟ یقینا اس قسم کے بندھن میں سماجی و معاشی حیثیت، مذہب، تعلیم وغیرہ کا حصہ رہا ہو گا۔ کچھ ممکنہ وجوہات درج ذیل ہیں۔

1۔ ایسے رشتے جوڑتے وقت خیال ہے کہ ایک جیسے ماحول میں پلے بڑھے افراد میں ہم آہنگی اور ایڈجسٹمنٹ کے مسائل کم ہوتے ہیں۔
2۔ خاندانی روایات، قدریں اور اگلی نسل میں محبت کی منتقلی آسان ہوتی ہے۔
3۔ اپنے رشتہ دار وقت پہ زیادہ کام آتے ہیں۔ گو یہ حقیقت اور مفروضہ دونوں ہی ہو سکتے ہیں۔

4۔ معاشی صورتحال:۔ امیر، جاگیردار اور دولتمند افراد اپنی دولت کی تقسیم کی بجائے بے جوڑ رشتوں (مثلاً بیس سالہ لڑکی اور سات سالہ لڑکا) کو فوقیت دیتے ہیں۔ تاکہ گھر کی دولت گھر میں رہے۔
5۔ یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ آپس کی شادیوں میں طلاق کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
6۔ مذہبی تنازعات، تاکہ آئندہ نسلوں میں مذہبی تنازع نہ ہو۔

7۔ وطن میں رہنے والے رشتہ داروں کو متمول ممالک میں سیٹ کرنا (بسانا) اور اس کے لئے وہ خود اپنی اولاد کو شادی پہ مجبور کرتے ہیں کہ یہ طریقہ قانونی طور پر شہریت حاصل کرنے کا بہترین حربہ ہے۔

8۔ تعلیم کی کمی بھی ایک اہم وجہ ہے جس کے باعث آگہی کم ہوتی ہے اس بارے میں۔ اگر ایسی شادیوں کے ہونے میں نیک نیتی، محبت اور ایثار شامل بھی ہو تو نتیجہ بالعموم منفی ہی ہوتا ہے۔ جو اکثر ذہنی و جسمانی تکلیف دہ اثرات مرتب کرتا ہے۔ بالخصوص بچوں میں موروثی بیماری اور عمر بھر کی معذوری کی صورت۔ لہذا ضروری ہے کہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے نتائج پہ نظر ثانی کی جائے۔

قریبی رشتہ داروں میں شادی اور جینیاتی بیماریوں پہ قابو کس طرح ہو؟

2017؁ کے اعداد وشمار میں دنیا میں تقریبا 1.1 بلین ( یعنی ایک ارب سے زیادہ آبادی) افراد ایسے ممالک میں رہتی تھی کہ جہاں قریبی رشتہ داروں میں شادیوں کا رواج ہے اور ہر تین میں سے ایک شادی کزنز کے درمیان ہو رہی ہے۔ ضروری ہے کہ اس سلسلے میں معاشرتی طورپر عملی اقدامات کیے جائیں۔ چند اقدامات درج ذیل ہیں۔

1۔ قریبی رشتہ داروں میں شادی کے متعلق خطرہ سے آگہی پیداکی جائے۔ جو نصاب میں شامل کر کے یا سوشل میڈیا اور دوسرے تشہیری اداروں کی مدد سے کی جا سکتی ہے اور عوام کو اس کے نتائج سے آگاہ کیا جائے۔
2۔ اس سلسلے میں مقامی طور پر ثقافتی یا مذہبی لیڈران کی مدد کی جائے۔
3۔ ثقافتی طور پر اس کا نعم البدل تلاش کیا جائے۔

4۔ شادی سے قبل مشاورت (Pre Marital Counselling) ضرور کر دی جائے۔
5۔ پری نیٹل (بچے کی میڈیکل صورتحال کے سلسلے میں) اور ڈائگنوسٹک ٹیکنالوجی میں ترقی کا کام ہو۔
6۔ اگر شادی کی صورت میں بچہ ہو تو کم عمری میں اس کی تشخیص ہو تاکہ علاج جلد شروع ہو۔

چونکہ سعودی عرب میں 60 سے 70 فیصد شادیاں فرسٹ کزنز میں ہو رہی ہیں۔ وہاں پہ آج کل بہت سے ادارے کھل گئے ہیں کہ جو پری میریٹل Premarital (شادی سے پہلے) کونسلنگ اور جینیاتی جانچ (یا جینیٹنگ اسکریننگ) کرتے ہیں۔ اگر نتائج ہوں کہ بچے کے نارمل ہونے کے امکانات نہیں ہیں تو ان کو مشورہ دیا جاتا ہے۔

1۔ جوڑا فیصلہ کرے کہ شادی نہ ہو۔
2۔ شادی تو ہو مگر بچہ نہ ہو۔
3۔ اگر جوڑا فیصلہ کرے کہ بچہ ہو تو پیدائش کے فوراً بعد اس کا علاج شروع ہو۔

4۔ جوڑا پری نیٹل اسکریننگ بالخصوص حاملیت کی ابتدا میں کرائے اور اس بات کے لئے تیار رہے کہ حمل مذہبی لیڈران سے مشورہ کے بعد ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔
5۔ اگر بچہ پیدا ہو تو جوڑے کوسماجی، جذباتی اور معاشی نتائج کا پتہ ہو۔ جو اس کی معذوری کی صورت میں مرتب ہوں گے۔ یاد رکھیے قوم کا مستقبل صحت مند بچے اور سماج ہے۔ ہم کو اپنے بہت سے فیصلوں پر اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذہنی اپچ بڑھائیں۔ جو انسانی مفاد کے حق میں سود مند ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3