مولوی صاحبان سر سید کو کیوں واجب القتل مانتے تھے؟


برصغیر میں گذشتہ تین صدیوں میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے جو کارآمد اقدام ہوئے ان میں سر سید احمد خان کی کاوشیں سرفہرست ہیں۔ سر سید نے مسلمانوں کی سماجی اصلاح اور تعلیمی ترقی کے لئے کچھ بہت مفید کام کیے۔ انہوں نے تین اہم قدم اٹھائے، پہلا سائنٹفک سوسائٹی قائم کرنا، دوسرا تہذیب الاخلاق نامی رسالے کا اجرا اور تیسرا مدرسۃ العلوم بنانا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔

سر سید نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دیکھا، سماجی بدحالی پر غور کیا اور جدید علوم کے ساتھ قوم کو جوڑنے کی ٹھان لی۔ اس کام کے لئے سر سید نے جو کچھ برداشت کیا اس کا ذکر کتابوں میں محفوظ ہے۔ اس تفصیل میں جائیے تو حیرانی ہوتی ہے کہ سر سید کے مخالفین میں اسی مسلمان قوم کے بزرگ پیش پیش تھے جس قوم کا نصیب سنوارنے کے لئے وہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ سرسید احمد خاں نے جو مدرسۃ العلوم قائم کیا، وہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں اس ایک ادارے نے جتنا اہم کردار ادا کیا ہے، اس کا مقابلہ مسلمانوں کے باقی بہت سے ادارے اور تنظیمیں مل کر بھی نہیں کر سکتے۔

سرسید کے لئے مدرسۃ العلوم کا قیام ہر گز آسان نہیں رہا۔ مذہبی قیادت انہیں پہلے ہی عتاب کا شکار بنا چکی تھی اور ان کی ہر کاوش کو بہر حال ایک دین دشمن کی شورش ہی قرار دے دیا جاتا تھا۔ ان اصحاب کے جارحانہ رویے نے اس ادارے کا قیام نا ممکن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جو ادارہ بعد میں لاکھوں مسلمانوں کی شاندار تعلیم اور ترقی کا سبب بنا۔ اس وقت کے حالات کا اندازہ لگانے کے لئے سرسید کی سوانح، حیات جاوید کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ حیات جاوید کے مصنف مولانا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ ’اخباروں اور رسالوں میں مدرسۃ العلوم کے خلاف بے شمار مضامین چھپتے تھے اور سرسید کی تکفیر کے فتوے شائع کیےجاتے تھے۔ مولوی واعظ کی مجلسوں میں لوگوں کو (سرسید کے تعلیمی ادارے کے لئے) چندہ دینے سے روکتے تھے۔ ‘

ذرا سوچئے ایک شخص، جو کفرو شرک کے فتوے جھیل رہاہے، قتل کی دھمکیاں آ رہی ہیں، لوگوں کو اس کے بائیکاٹ کے لئے تاکید کی جا رہی ہے، اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ اپنے اپنے اداروں اور مٹھوں کو مقدس کمائی کا اڈہ بنا کر عیش کرنے والے اس خلوص اور درد کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایک طرف سرسید جان لڑا رہے تھے، تو دوسری طرف مخالف ٹولہ ان کی ٹانگ کھینچنے، بلکہ انہیں مٹا دینے پر تلا تھا۔ تو اب سوال یہ کہ سید نے یہ کام انجام کیسے دیا؟ اس کی روداد مولانا حالی نے بڑی تفصیل سے لکھی، اگر آپ اس کو پڑھیں، تو سمجھ میں آئے گا کہ جب تک کوئی مستقل مزاجی سے جنون کی حد تک نہ جٹ جائے، تب تک ایسے تاریخ ساز کام نہیں ہوتے۔

چندہ جمع کرنے کے لئے سرسید نے ہر وہ ذلت گوارا کی، جو بمشکل ہی قابل برداشت ہو سکتی تھی۔ حیات جاوید میں درج ہے کہ ’چندہ وصول کرنے کے موقع پر انہوں نے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ میں کون ہوں، کس سے مانگتا ہوں اور کس طرح مانگتا ہوں۔ نمائش گاہ علی گڑھ میں انہوں نے کتابوں کی دکان لگائی اور خود کتابیں بیچنے کے لئے دکان پر بیٹھے۔ والینٹیئر بن کر گلے میں جھولی ڈالی، جلسہ کیا اور اسٹیج پر کھڑے ہو کر غزلیں گائیں۔ ‘

مدرسۃ العلوم کے لئے سرمایہ جمع کرنے کی خاطرسر سید نے لمبے لمبے سفرکیے اور اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے۔ کسی نے ایک بار مشورہ بھی دیا کہ آپ کالج کے لئے سفر کرتے ہیں، تو خرچ کمیٹی سے لیا کیجئے، مگر سرسید نے انکار کر دیا اور کہا کہ ’میں مدرسے کے لئے اسی حالت میں سفر کر سکتا ہوں، جب سفر کے کُل اخراجات اپنے پاس سے اٹھا سکوں۔ ‘ بیت المال سے جہاز کے ٹکٹ کٹانے اور چندہ جمع کرنے والا سفیر بننے کے لئے کمیشن طے کرنے والے شاید اس واقعے کی حساسیت کو نہ سمجھ سکیں۔ اتنا ہی نہیں، اس مخلص شخص نے یہ بھی کیا کہ جہاں کہیں جاتے اور کوئی دعوت کی پیشکش کرتا، تو اس سے فرما دیتے کہ ’جو کچھ میرے کھانے پر خرچ کروگے، وہ نقد دے دو تاکہ کا لج کے چندے میں جمع کر دیا جائے۔ ‘

مولانا حالی لکھتے ہیں کہ ’مدرسۃ العلوم کے سب سے بڑے مخالف دو بزرگ تھے، جو باوجود ذی وجوہات اور ذی رعب ہونے کے علوم دینیہ سے بھی آشنا تھے۔ ایک مولوی امداد العلی، ڈپٹی کلکٹر کانپور اور دوسرے مولوی علی بخش خان، سب جج گورکھپور۔ اگرچہ یہ دونوں صاحب مذہبی عقائد و خیال کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ضد حقیقی تھے یعنی پہلے سخت وہابی اور دوسرے سخت بدعتی اور یہ ایسا اختلاف تھا کہ کسی بات پر دونوں کا اتفاق کرنا محال عادی معلوم ہوتا تھا، باوجود اس کے مدرسۃ العلوم کی مخالفت پردونوں ہم زبان اور متفق الکلمہ تھے۔ ‘

سر سید نے تہذیب الاخلاق نامی رسالہ شروع کیا تو طوفان مچ گیا۔ اس رسالے کا مقصد مسلمانوں کی سماجی اصلاح، ان میں تعلیم کا ذوق و شوق پیدا کرنا اور ان میں سائنٹفک سوچ کو فروغ دینا تھا۔ مذہبی قیادت نے اس رسالے کے خلاف خوب توانائیاں صرف کیں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے سرسید احمد خاں کی سوانح حیات، حیات جاوید میں لکھا ہے کہ سرسید نے جب رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا، تو ان کی شدید مخالفت ہوئی۔

مولانا حالی لکھتے ہیں کہ ’اس پرچہ کے دو ہی تین نمبر نکلنے پائے تھے کہ چاروں طرف سے اُس کی مخالف ہونی شروع ہوئی اور ساتھ ہی اس مدرسے، سے بھی جس کو سرسید قائم کرنا چاہتے تھے، عموماً سوئے ظن پیدا ہونے لگا۔ بہت سے اخباروں میں مخالفانہ مضمون چھپنے لگے اور چند پرچے، جن میں سے کانپور کا نور الآفاق اور نور الانوار زیادہ مشہور تھے، تہذیب الاخلاق کے رد کے طور پر جاری کیے گئے۔ رسالۂ اشاعتہ الستہ، جو خاص اہل حدیث کی تائید کے لئے جاری ہوا تھا، اُس میں بھی تہذیب الاخلاق کے برخلاف مضمون نکلنے لگے اور سرسید کی تکفیر کے فتوے جا بجا لکھے جانے لگے۔ یہاں تک ان کے ساتھ ان کے دوست اور اعوان و انصار بھی نیچری بلکہ کرسٹان کہلانے لگے۔ ‘

مولانا حالی حیات جاوید میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ’جب سرسید لندن سے واپس آئے اور الہ آباد میں پہنچے، تو ان کو معلوم ہوا کہ اضلائے شمال و مغرب اور دہلی میں اس مضمون کے خطوط اور اشتہار جاری ہوئے ہیں کہ کوئی سید احمد خاں سے نہ ملے اور نہ ان کے ساتھ کھانا کھائے اور جو ایسا کرے گا وہ دائرۂ اسلام اور جماعت اہل اسلام سے خارج ہو جا ئے گا۔ ‘

مولانا حالی حیات جاوید میں لکھتے ہیں کہ سرسید کو ملحد، لامذہب، کرسٹان، نیچری، دہریہ، کافر، دجال اور کیا کیا حطاب دیے گئے۔ آُن کے کفر کے فتوؤں پر شہر شہر اور قصبہ قصبہ کے مولویوں کی مہریں لگوائی گئیں اور دستخط کرائے گئے یہاں تک کہ جو لوگ سرسید کی تکفیر پر سکوت اختیار کرتے تھے اُن کی بھی تکفیر ہونے گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter