بدیسی ادب: ماچس والی لڑکی


بلا کی سردی تھی۔ برف تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ شام اندھیری ہونی شروع ہو گ ئی تھی۔ بالآخر رات پڑ گیٔ۔ سال کی آخری رات۔ ایک چھوٹی سی غریب بچی، ننگے سر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کے پاؤں میں اس کے اپنے نہیں بلکہ ماں کے چپل تھے۔ لیکن وہ کس کام کے؟ وہ تو اس کے ننھے ننھے پاؤں کے لئے بہت بڑے تھے۔ صبح جب وہ سڑک پار کرنے لگی تھی تو ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی سے پچنے کی کوشش میں چپل اس کے پاؤں سے اتر گئے تھے۔ ایک تو گٹر میں گر گیا تھا۔ دوسرا ایک لڑکا اس کا منہ چڑاتا ہوا، لے کر بھاگ گیا تھا۔ اور پھر یہ چھوٹی سی لڑکی سارا دن ننگے پاؤں ہی پھرتی رہی جو اب سردی کی شدت سے نیلے ہو رہے تھے۔

اس نے ایک پھٹا پرانا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ ماچسوں کے کچھ پیکٹ اس نے ایپرن کی جھولی میں رکھےہوئے تھے۔ ایک پیکٹ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ لیکن صبح سے اب تک اسے کوئی گاہک نہیں ملا تھا۔ اب تک اس نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں کمائی تھی۔

سردی سے کانپتی، بھوک سے لاغر دکھ کی تصویر بنی یہ غریب معصوم بچی گلی گلی ماچسوں کے گاہکوں کی تلاش میں پھرتی رہی۔ برف کے گالے اس کے لمبے سنہری بالوں پر گرتے رہے۔ وہ ترسی ہوئی نظروں سے کھڑکیوں میں دیکھتی جن میں پانچ دن پہلے گزرے کرسمس کی رنگ برنگی بتیاں روشن تھیں، گھروں میں سے لزیز کھانوں کی خوشبو آرہی تھی۔ آخر یہ نئے سال کی رات تھی نا! کھانوں کی خوشبو سونگھ سونگھ کر اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔ اس کی بھوک اور بھڑک اٹھی تھی۔

اب وہ جس گلی میں آئی تھی اس کے دو مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تھڑا بنا ہوا تھا۔ تھکن سے چور بچی سستانے کو تھڑے پر بیٹھ گئی۔ اپنے یخ پاؤں کو اس نے ہاتھوں سے گرمانے کی کوشش کی۔ پھر اکڑوں بیٹھ کر اپنے سکرٹ سے انہیں کسی حد تک ڈھانپا لیکن وہ ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔

سردی اور شدید ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ گھر واپیس چلی جائے۔ کیسے واپس جاتی؟ اس کی تو صبح سے ایک ماچس بھی نہیں بکی تھی۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جاسکتی تھی۔ اسے ظالم باپ سے مار پٹنے کا ڈر تھا۔ اور ویسے بھی گھر میں سردی کونسی کم تھی۔ ایک کمرے والے گھر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑاہواتھا اور چھت میں ایک بڑا سا سوراخ جس کو بھوسے اور پرانے چیتھڑوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن گھر میں ہر وقت ٹھنڈی ہوا آتی رہتی۔

اس کے ہاتھ سردی سے بلکل سن ہو چکے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کاش اس وقت کہیں سے تھوڑی سی آگ مل جائے تو اس کے ہاتھ ذرا سے گرم ہو جائیں۔ لیکن آگ کیسے ملے؟ کہاں سے آئےِ؟ اس نے لالچ بھری نظروں سے ماچس کی ڈبیہ کی طرف دیکھا۔ امید کی ہلکی سی کرن نظرآئی۔ سر کے ایک جھٹکے سے اس نے اس خیال کو بھگانے کی کوشش کی۔ خیال بار بار واپس لوٹتا رہا۔ اس نے جھجکتے جھجکتے ایک تیلی نکالی، ڈرتے ڈرتے اسے تھڑے کے فرش سے رگڑا۔ ایک شعلہ نمودار ہوا۔ اس نے جلتی تیلی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپا۔ شعلے کی تپش کو محسوس کیا۔ اس شعلے کی چمک عجیب سی تھی۔ اس لمحے میں بچی کو ایسا لگا کہ وہ ماجس کا شعلہ نہیں تھا بلکہ ایک بہت بڑا آتش دان تھا جس پر جمکیلے پیتلل کے دستے لگے ہوئے تھے اور سنہری جالی کے پیچھے جلتی آگ اس سجے سجائے کمرے کو تاپ رہی تھی جہاں وہ ایک دیوان پر موٹا سا گرم اونی گاؤن پہنے بیٹھی تھی۔

لیکن شعلہ لپک کر ایک دم بجھ گیا۔ أتش دان، گرم اونی گاؤن، دیوان، سب اچانک غائب ہو گئے، تاریکی پھر سے چھا گئی۔ صرف بجھی ہوئی ماچس کی تیلی اس کے ہاتھ میں تھی۔

اس نے ایک اور تیلی جلائی۔ تھڑے سے جڑی ہوئی دیوار کو شعلے کی روشنی نے چمکیلے موتیوں سے جڑی جھالر میں بدل دیا۔ اس جھالر کے پیچھے اسے صاف نظر آیا جیسے کرسمس کی باقیات سجاوٹوں سے بھرے کمرے میں ایک خوش و خرم خاندان کے لوگ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سفید میز پوش پر کھانے کی پلیٹیں لگی ہیں۔ کٹوروں میں انواع و اقسام کے کھانے رکھے ہیں۔ ایک بڑا برتن گرم گرم سوپ سے بھرا ہوا ہے جس میں سے بھاپ نکل رہی ہے۔ کھانے کی میزسے اٹھ کر ایک لڑکا سوپ کا پیالہ لے کر اس بچی کے پاس آیا۔ لیکن جیسے ہی اس نے سوپ کا پیالہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ماچس بجھ گئی اور پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ اب اس کےسامنے صرف ٹھنڈی، پتھریلی دیوار تھی۔

سردی سے کانپتے ہاتھوں سے لڑکی نے ایک اور ماچس جلائی۔ ایک اور ہی منظر نظر آیا۔ اب وہ ایک بہت بڑے کرسمس کے درخت کے سامنے بیٹی تھی۔ درخت کرسمس کی سجاوٹوں سے لدا ہوا چھوٹے چھوٹے آئینوں سے آراستہ تھا جن سے ٹکرا کر کمرے میں جلتی ہوئی شمعوں کی روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ درخت کے نیچے گڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک گڑیا بسکٹوں کا ڈبہ اٹھا کر بچی کی طرف آیٗ۔ لڑکی نے دونوں ہاتھ اس کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ اور یہ ماچس بھی بجھ گئی۔

بچی نے آنکھیں اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ایک ستارہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آ رہا تھا۔ بچی کی دادی، جو واحد شخص تھی جس سے اس کو پیار ملا تھا اسے کہانیاں سناتی تھی۔ دادی نے ایک کہانی سناتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ جب آسمان سے چمکتا ہوا تارہ ٹوٹ کر نیچے آتا ہے تو زمین سے کوئی روح آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ ٹوٹا ہوا تارہ کسی کی موت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ معلوم نہیں یہ تارہ کس کی موت کا پیغام لے کر میری طرف بڑھ رہا ہے؟ کوئی نہ کوئی ضرور مرنے والا ہے۔ خدا جانے کون؟

لڑکی نے ماچس کی ایک اور تیلی جلائی۔ پھر سے روشنی ہوئی۔ اس روشنی میں اسے صاف نظر آیا کہ سر پر روشنی کا تاج پہنے اس کی دادی اس کے سامنے کھڑی اسے پیار سے دیکھ رہی ہے۔ ’دادی، دادی، پیاری دادی مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ میں بہت بھوکی ہوں۔ مجھ اپنے ساتھ لے چلیں دادی۔ مجھے معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ ماچس بجھے گی آپ بھی چلی جائں گی۔ جیسے وہ گرم آتش دان غائب ہو گیا۔ جیسے سوپ کے پیالے والا اچھا سا لڑکا چلا گیا۔ جیسے وہ پیاری سی بسکٹوں والی گڑیا چلی گئی۔ آپ بھی ایسے ہی چلی جائیں گی دادی۔ لیکن آپ نہ جانا۔ میں اب اندھیرا نہیں ہونے دوں گی۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گی دادی، نہیں جانے دوں گی۔ ‘

اس سے پہلے کہ وہ تیلی بھی بجھ جاتی اس نے ایک تیلی اور جلائی، پھر دوسری، پھر ایک اور۔ اور پھر اس نے ایک پورے ماچسوں کے بنڈل کو تیلی دکھا دی۔ تمام ماچسیں ایک دم جلیں۔ ایک بہت بڑا شعلہ اٹھا۔ رات دن کی طرح روشن ہو گئی۔ دادی مسکرا رہی تھی۔ اس کا تاج چمک رہا تھا۔ وہ ایسی خوبصورت لگ رہی تھی جیسی وہ ساری زندگی نہیں لگی۔ دادی نے ہاتھ بڑھائے۔ بچی کو گود میں لیا۔ بچی خوشی سے نہال تھی۔ اسے لگا وہ ستاروں کی طرف جا رہی ہے۔

لیکن دو پرانے مکانوں کے درمیان بنے تھڑے پر دیوار سے لگی ایک چھوٹی سی بچی، جس کے رخسار لال ہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، سال کی آخری رات کو سردی کی تاب نہ لا کر مر چکی ہے۔ اس کا بے جان جسم سردی سے جم کر اکڑ چکا ہے۔ وہ ایسے ہی بیٹھی ہے جیسے رات کو بیٹھی تھی۔ ایک طرف جلی ماچسوں کا ڈھیرہے، جھولی میں کچھ ان بکی ماچسوں کی ڈبیاں۔ اور ایک ہاتھ میں ماچس کا پیکٹ جیسے ابھی بھی کہ رہی ہو کہ کوئی تو مجھ سے ماچس خرید لے۔

صبح کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے تھڑے کے پاس جمع ہیں۔ کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ بیچاری اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش میں مر گئی۔ لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ وہ اپنے تصور میں کتنی خوبصورت دنیا دیکھ رہی تھی اور اب کتنی مسرت سے اپنی بوڑھی دادی کی گود میں ایسی دنیا میں نئے سال کا استقبال کر رہی ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ سردی ہے نہ باپ سے پٹنے کا خوف، جہاں صرف خوشی ہی خوشی ہے، محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے۔

”ماچس والی“ ہانز کرسچن اینڈرسن کی ایک کہانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).