ہندوستانی راجے اور حاکم کی اگاڑی


ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ریڈنگ کو مداخلت کرنا پڑی۔ راجہ سردیا کشن کول کے پٹیالہ سے چلے جانے کے بعد راجہ صاحب اور راقم الحروف کے درمیان بہت گہرے دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ چنانچہ ایک بار لاہور میں راجہ صاحب سے ملاقات ہوئی، اور دالیان ریاست کے مظالم اور ان کے ہاتھوں سے راجہ صاحب کے ہمیشہ محفوظ رہنے کے سلسلہ میں باتیں ہو رہی تھیں، تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا:۔

”سردار صاحب آپ کی اور میری دونوں کی پوزیشن ایک سپیر ے کی سی ہے، جو زہریلے سانپوں کو اپنے ہاتھوں میں کھلاتا ہے، اور خود محفوظ رہتا ہے۔ میری زندگی ریاستوں کا سیکرٹری اور وزیراعظم ہوئے صرف ہوئی، اور میں نے ان کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ مگر بھی ان میں سے اکثر نے مجھے انتہائی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ کیونکہ یہ قریب رہنے کے باعث کسی بھی وقت ناراض ہو سکتے تھے۔ اور آپ کے خلاف بھی انہوں نے بہت کوشش کیں، مگر یہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوئے“۔

یعنی اگر مہاراجہ کشمیر اور مہاراجہ پٹیالہ وغیرہ نے راجہ سردیا کشن کول کو کچلنے کی کوشش کی، تو اس کی وجہ بھی ” حاکم کی اگاڑی“ تھی۔ کیونکہ یہ ہر وقت ان والیان ریاست کے ساتھ رہے، اور والیان ریاست کسی بھی بات کے متعلق ناراض ہو سکتے تھے۔

ریاست چرکار ی کے وزیر میر علی عباس نے راقم الحروف کو اپنا ایک واقعہ سنایا:۔ میر صاحب مہاراجہ چرکاری کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ اور مہاراجہ کا مسوری میں قیام تھا، جہاں کہ مہاراجہ کی ایک داشتہ طوائف لالی بھی آپ کے ساتھ تھی۔ ایک روز مہاراجہ لالی پر بہت خوش تھے، تو لالی کی غیر حاضری میں مہاراجہ نے میر صاحب سے کہا، ” میر صاحب لالی بہت ہی شریف اور وفا شعار ہے“۔

یہ سن کر میر صاحب نے جواب دیا، ہاں حضور، لالی تو بہت ہی مخلص اور بے ریا ہے“۔ اس واقعہ کے بیس روز بعد مہاراجہ کسی وجہ سے لالی سے ناراض ہو گئے، تو مہاراجہ نے میر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، ” میر صاحب، لالی بہت چالاک اور عیار قسم کی عورت ہے“۔ میر صاحب نے جواب دیا، ” ہاں حضور، یہ سو فیصدی خود غرض طوائف ہے“۔ مہاراجہ نے جب میر صاحب کا یہ جواب سنا تو آپ نے میر صاحب سے کہا ”میر صاحب، آپ بھی عجیب انسان ہیں۔ اس روز کہتے تھے کہ لالی مخلص اور بے ریا ہے اور اب آپ کہتے ہیں کہ یہ سو فیصدی طوائف ہے“۔

مہاراجہ کا یہ ارشاد سن کر میر صاحب نے ہاتھ باندھے عرض کیا۔ :۔

” سرکار آپ کا حکم بجا۔ مگر سوال یہ ہے، کہ اگر میں نے حضور کی ملازمت کرنی ہے، تو کس طرح حضور کے ارشاد کی تردید کرنے کی جرات کر سکتا ہوں۔ میں تو حضور کے ہر حکم کی تعمیل کروں گا، چاہے وہ درست ہو یا غلط، اور آپ کے ہر خیال کی تائید کروں گا، چاہے میں اس خیال کو ناپسند کروں“۔ مہاراجہ چرکاری، میر علی عباس کا یہ جواب س کر مسکرا دیے۔ کیونکہ ” حاکم کی اگاڑی“ سے بچنے کی صورت بھی یہی تھی، کہ میر صاحب مہاراجہ کی ہاں میں ہاں ملاتے، اور مہاراجہ کو ناراض ہونے کا موقع نہ دیتے۔

ریاست نابھ میں ایک صاحب سردار بہادر گوردیال سنگھ ولٹ ( پنجاب ہائیکورٹ کے جج مسٹر ولٹ کے والد ) مہاراجہ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ ان کے متعلق یہ واقعہ بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے، کہ آپ غالباً بیس برس تک مہاراجہ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہے، دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں اٹھارہ گھنٹے مہاراجہ کے قریب رہتے۔ مگر کبھی بھی ایسا نہ ہوا، کہ مہاراجہ ان پر ناراض ہوں۔ نابھ کے لوگ تو سردار بہادر کو گرامو فون کہتے۔ یعنی جو مہاراجہ نے کہا، وہ آپ نے آگے کہہ دیا، اور جو کسی نے مہاراجہ کے لئے کہا، وہ مہاراجہ سے جا کہا، اور آپ کوئی کمی بیشی نہ کرتے۔ مگر میں آپ کو دیوتا سمجھتا تھا۔ ان کے دیوتا ہونے کا سب سے بڑا اور نا قابل تردید ثبوت یہ تھا، کہ آپ نے بیس برس تک دن رات ایک والئے ریاست کے قریب کے ملازموں پر دن میں کئی بار خوش ہوتے، اور کئی بار ان ملازموں پر عتاب نازل ہوتا، اور ” حاکم کی اگاڑی“ سے بچنا آسان نہ تھا۔

کتاب سیف و قلم سے اقتباس۔

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon