ایک کہانی… نئی یا پرانی؟ … (آخری حصہ)


اسی شام انتظامی افسران نے گستاخ پٹواری کو ریسٹ ہائوس میں طلب کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر چکوال کیپٹن سعید نے کہا کہ اگرچہ میرے اختیارات محدود ہیں مگر تم نے کام ایسا کیا ہے کہ مجھ سے جتنا ہو سکا تمہارا دفاع کروں گا۔

ڈپٹی کمشنر نوابزادہ یعقوب خان نے پٹواری کو الگ کمرے میں بلایا، اپنا پرس نکال کر میز پر رکھ دیا اور کہا کہ اگر میرے کسی دورے پر تم نے کچھ خرچ کیا ہو تو اس میں سے لے لو۔ اس نے انکار کیا تو ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمہارے ساتھ تو اب جو ہو گا سو ہو گا لیکن خدارا کہیں بھی میرا نام نہ لینا۔

اگلے دن تمام افسران بشمول ڈی سی، اے سی، ایس پی اور تحصیلدار وغیرہ کے تبادلے کر دیئے گئے۔ اب پٹواری کے لیے انکوائریوں اور مصیبتوں کا دور شروع ہوا۔ جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ نئے اسسٹنٹ کمشنر اے کے خالد نے ان کی لائسنسی بندوق ضبط کی اور اس ”مقدمے‘‘ میں ان کی عبوری ضمانت دینے والے چوہدری جہان خان ایڈووکیٹ نے جب اے سی سے پوچھا کہ مچلکے میں کون سا جرم لکھنا ہے تو صاحب بہادر نے کہا کہ آپ مچلکہ فِل کر دیں، میں خود ہی کوئی جرم لکھ لوں گا۔

چکوال کے سردار اشرف خان مرحوم اس وقت پارلیمانی سیکرٹری تھے مگر وہ ایسے موقعوں پر ”اللہ خیر کریسی‘‘ تک ہی محدود رہتے تھے، البتہ راجہ محمد افضل کالس کی سفارشوں پر اے سی نے بتایا کہ مجھے اوپر سے حکم ہے کہ اس پٹواری کو کسی نہ کسی مقدمے میں لمبی قید کی سزا سنائوں، تاہم مجھ سے جتنا ہو سکا مقدمات کو لمبا کرتا رہوں گا۔

اس واقعہ کے دوسرے دن امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی صاحب نے اپنا معتمد خاص (امیر جماعت اسلامی لائلپور) پٹواری کے پاس خان پور بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے آپ کا فوٹو منگوایا ہے اور جابر حکمران کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ نیز کہا ہے کہ آپ قدم بڑھائیں جماعت کے وسائل آپ کے لیے حاضر ہیں۔

پٹواری نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ایک جذباتی قدم تھا، میں معمولی سرکاری ملازم ہوں اور میرا مزید ”قدم بڑھانے‘‘ کا ارادہ نہیں۔ اس پر ابوالاعلیٰ نے اسے تفصیلی خط لکھا اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ خط ایجنسیوں نے پکڑ لیا۔ انکوائریوں کا رخ اس طرف مڑ گیا، تاہم پٹواری کا کسی بھی جماعت وغیرہ سے تعلق ثابت نہ ہو سکا۔

پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب عبدالکریم کنڈی اس وقت چکوال میں سول جج تعینات تھے۔ انہوں نے ناطق زیدی ایڈووکیٹ کے ذریعے پٹواری سے ملاقات کی۔ اس کی جرأت پر شاباش دی اور پیشکش کی کہ اگر تم چاہو تو صدر کے خلاف میری عدالت میں خرچے کا دعویٰ کر دو اور ثبوت پیش کرو تو میں صدر کے خلاف ڈگری جاری کر دوں گا، پھر مل کر بھگتیں گے۔

پٹواری نے ان کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے ناجائز طور پر مطعون کیا اس لیے میں نے کھری کھری سنا دیں، میں ”اکیلا ‘‘ آدمی ہوں مزید بات بڑھانا میرے بس کی بات نہیں۔ سابق گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمن اس وقت راولپنڈی میں لیفٹیننٹ جنرل تعینات تھے۔ وہ پٹواری کے مہربان تھے۔

1955-56ء میں جب وہ کروڑ لعل عیسن (لیہ) میں پٹواری تعینات تھا تو عتیق الرحمن وہاں اپنی زمینوں کے مسائل کے سلسلے میں اس کے پاس جاتے تھے۔ اکثر ان کی بیگم مسز نسیم عتیق الرحمن (دختر بیگم شاہنواز تحریک پاکستان فیم) بھی جاتی تھیں۔ اس وقت سے ان کے ساتھ واسطہ تھا۔

اس واقعہ کے بعد پٹواری کسی کام کے سلسلے میں ان کے گھر راولپنڈی گیا تو بیگم صاحبہ نے دہائی دی کہ تمہارے خلاف اعلیٰ ترین سطح پر انکوائری ہو رہی ہے، تم ہمارے ساتھ اپنا تعلق ختم سمجھو ورنہ ہمیں بھی لے ڈوبو گے۔ بات اخبارات میں بھی پھیلنی شروع ہو گئی۔

شنید ہے کہ جب انکوائری رپورٹس صدر ایوب خان تک پہنچیں تو انہوں نے مزید رسوائی کے ڈر سے پٹواری کو نہ چھیڑنے اور معاملے پر مٹی ڈالنے کا حکم دیا اور یوں اس کی گلوخلاصی ہوئی۔ ایوب خان اس کے بعد دو دفعہ مزید شکار کے لیے چکوال آئے‘ مگر اس طرح کہ پٹواریوں سے خرچہ تو نہ لیا گیا؛ البتہ گورنر امیر محمد خان کا حکم آ گیا کہ خبردار! پٹواری خان پور شکار گاہ کی طرف نہ جانے پائے، سو ایس پی سکیورٹی نے اس کو دونوں دفعہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند کر دیا۔

بریگیڈیئر مظفر آف جھاٹلہ کچھ عرصے بعد پٹواری کو اتفاقاً ملے تو پوچھا ”جوان تم نے ابھی تک کوئی قتل نہیں کیا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں جناب! میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔ بریگیڈیئر صاحب نے کہا ”پاگل تو نہیں ہو لیکن ہمارے لیے تو تم نے زلزلہ برپا کر دیا تھا۔ تمہیں کیا خبر کہ بات کہاں تک گئی اور کس کس نے بھگتی؟‘‘۔

بیتے دنوں کا ایک نا معتبر سا قصہ دہرانے کی غرض یہ عرض کرنا ہے کہ یہ کہانی پرانی نہیں ہوئی۔ ماضی ہو یا حال، اربابِ اقتدار و اختیار کی رشوت اور بد عنوانی کے خلاف کھوکھلی بڑھکوں کی حیثیت محض لطیفوں سے زیادہ نہیں۔

یہ لوگ جتنے بھی کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں، ان کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی لغویات کہا جا سکتا ہے۔ کل بھی ان کا یہی وتیرہ تھا، آج بھی ان کا یہی چلن ہے۔ پٹواری ہی ان کے جلسوں اور شکاروں کا انتظام کرتے ہیں اور پٹواری ہی ان کے جلسوں کے لیے لوگ، انتخابات کے لیے ووٹ اور شکار گاہوں کے لیے تیتر اکٹھے کرتے ہیں۔

اگر یہ غلط ہے تو آج بھی پٹواریوں کے تبادلوں پر جھگڑے کیوں ہیں؟ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کو بیچ کر کھا جائیں تو ڈکار تک نہیں مارتے اور کرپشن ختم کرنے پر آتے ہیں تو کلرکوں اور پٹواریوں کی۔ کلرک کی رشوت والا ہزار کا نوٹ تو اینٹی کرپشن کا انسپکٹر بہ آسانی پکڑ لیتا ہے مگر انہیں سراغ نہیں ملتا تو موٹر وے اور میٹرو کے کمشن اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کا۔

انہیں سوئس بینکوں کے اکائونٹس کا کُھرا بھی نہیں ملتا‘ اور سرے محل کا بھی۔ وکی لیکس کے کردار بھی غبارِ وقت میں غائب ہو جاتے ہیں اور پاناما لیکس کے دو سو شاہکار بھی۔ ہمارے تفتیشی اداروں کو لندن فلیٹس کے مالکان کا بھی صحیح ادراک نہیں ہوتا اور بیرونِ ملک پڑے اربوں ڈالر کے اکائونٹ ہولڈرز کا بھی۔

آئین کے آرٹیکل 6 کے گناہ گاروں نے بھی سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں اور سانحہ بارہ مئی اور ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں نے بھی۔ یہ کوآپریٹو سکینڈل سے بھی بے خبر ہیں اور قرضے معاف کرانے والوں سے بھی۔ ترقیاتی منصوبوں کے کک بیکس بھی ان کے ہاتھ نہیں آتے اور کمیشن کی رقوم بھی۔

یہ عوامی جذبات کے استحصالی مافیا کے سامنے بھی بے بس ہیں اورجعلی ادویات بنانے والوں کے آگے بھی لاچار۔ یہ ٹارگٹ کلرز کے سرپرستوں سے بھی لا علم ہیں اور خود کش بمباروں کی کمین گاہیں بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ این آر او کے تعفن سے اٹھنے والے کھربوں کو زمین نگل گئی اور ”قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ جیسی مہمات کے بطن سے جنم لینے والے اربوں کو بھی آسماں کھا گیا۔

یہ کرپشن ختم کرنے کی بڑھکیں مارتے ہیں لیکن انہیں کچھ خبر نہیں کہ جہاد افغانستان کے ڈالر اور آئی جے آئی بنوانے کے کروڑوں کہاں غائب ہوئے اور رینٹل پاور اور سٹیل ملز جیسے سکینڈلز کی رقوم کس نے ہضم کیں؟ اپنی کرپشن اور ٹیکس چوری کی رپورٹوں پر ان کا استحقاق اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے مگر پٹواریوں کی بد عنوانیوں پر خطاب کرتے ہوئے اربابِ اختیار کی بریکیں فیل ہو جاتی ہیں۔

یا حیرت! کبھی یہ ہمیں سرے محل کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور کبھی ایون فیلڈ کے، مگر حاصل کیا ہوتا ہے؟… ہمارے والد شاہ نواز خان کا سروس ریکارڈ ایسے ہی کئی گستاخانہ واقعات سے عبارت ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد 2016ء تک اپنے گائوں میں مطمئن زندگی گزار تے رہے۔

تھوڑی سی جدی بارانی زمین اور سفید پوشی کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں مگر پچھتاوا بھی کوئی نہیں تھا؛ البتہ آخری دم تک دکھ رہا تو حبیب جالبؔ والا کہ… وہی اہل وفا کی صورتحال/ وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے۔

لب پر ہے تلخیٔ مئے ایام ورنہ فیضؔ
ہم تلخیٔ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).