لمبی زندگی رحمت کی بجائے زحمت نہ بن جائے


ہم لوگ اکثر اس جملے کو کئی بزرگوں کی زبان سے سن چکے ہیں کہ پتر اللہ لمبی حیاتی دے (بیٹا اللہ لمبی زندگی دے)۔ پہلے تو خیر میں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا اور اسے بزرگوں کے حسن اخلاق کے کھاتے میں ڈال دیا کرتا تھا مگر جیسے جیسے مرور زمانہ عمر کو کھائی جا رہا ہے ویسے ویسے زندگی کی بے ثباتی اور اپنی نا اہلی کا احساس زور پکڑتا جا رہا ہے۔ میں اکثر یہ جملہ سن کر سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ لمبی زندگی کیوں؟ ہم نےابھی تک زندگی میں ایسا کون سا تیر مار لیا ہے کہ اس ناکام زندگی کا بوجھ بڑھاپے کی ناتواں صحت کے ساتھ اور بڑھا لیں۔

زندگی کی دھوپ چھاؤں کا سفر ایسا ہے جس میں ننگے سر پر پڑنے والی سورج کی تپش چھاؤں کو بھی بخار کی تپتی ریت میں لٹا کر جلد جلواتی ہے۔ بعض اوقات، بقول رشید احمد صاحب صدیقی زندگی کی نعمتیں اچھی، اس کے مصائب گوارا اور آلودگیاں قابل احتراز معلوم ہونے لگتی ہیں، مگر صاحب اس کو مرقع نگاری کی لفاظی پر ہی محمول سمجھئے کہ زندگی کی اصل حقیقت میں صدیقی صاحب تو انسان کو ہی قابل احتراز سمجھنے لگے تھے۔

مانا کہ زندگی خوشی و مسرت اور رنج و غم کا امتزاج ہے، مانا کہ انہی خوشی و مسرت کے لمحات کا لطف لینا اور انہی رنج و غم کے بھاری وقت پر صبر کرنا ہی زندگی سے عبارت ہے اور مانا کہ انہی خوشیوں اور غموں میں زندہ رہنا احساس رکھنے والے انسان ہونے کی دلیل ہے، مگر یہ کیوں ضروری ہے کہ ان سب کو بوڑھے ہوتے تک بھگتائی جاؤ؟ ان خوشیوں کو تو دوام حاصل نہیں مگر یہ غم تو زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔ تو کیا جن خوشیوں کا ہم لطف اٹھا چکے اور جن غموں کا طوق گلے میں باندھ چکے، وہ کافی نہیں؟ ہمیں کیوں ہل من مزید کی تڑپ ہے؟

بچوں کو پیدا کر کے پالنا اور پیسے کمانا ہی مقصد حیات رہ گیا ہے اور ان کی ہی خوشیوں کو دیکھنا زندگی کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ کسی جوان کی موت پر آپ نے بھی لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ بچوں کی خوشیاں نہیں دیکھ پایا۔ بچوں کی جن خوشیوں پر ہم ہلکان و قربان ہوئے پھرتے ہیں وہی خوشیاں پھر ماں باپ کے گلے کا پھندہ بن جاتی ہیں اور بچوں کو اس تکلیف کا رتی بھر بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ تو پھر کیا اس پھندے کو گلے میں ڈالنے کے لئے لمبی عمر چاہئیے؟

انسان فطری طور پر جلد باز ہے (کان الانسان عجولا) اور نا شکرا ہے (ان الانسان لکفور) اور یہی بات ہم سب اپنی زندگیوں میں ہر گام مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہر بات کی ہمیں جلدی ہوتی ہے اور اللہ سے بھی ایسے مانگتے ہیں جیسے اپنا کوئی حق مانگ رہے ہیں۔ نا شکرے پن کی حد دیکھیں کہ جو اتنا کچھ پاس ہے اس پر کبھی دل سے حقیقی شکر ادا نہیں کیا مگر زیادہ سے زیادہ جلدی ملنے کی امید ایسے رکھتے ہیں جیسے قسمت میں لکھوا کر آئے تھے۔ اللہ کی رحمت دیکھیں کہ پھر بھی ایسے نوازتا ہے کہ اگر شرم ہو تو زباں اس کا شکر ادا کرتے نہ تھکے، تاکیداً کہا گیا کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو کہ تمہاری رعونت زمین کو چیر پھاڑ نہیں سکتے (و لا تمش فی الارض مرحاً انّک لا تخرق الارض) مگر ہماری رعونت کا حال یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ سب ہمارا کمال ہے اور زمین کا نظام جیسے ہم چلا رہے ہیں۔ حد دیکھیں کہ ہم روزمرہ دیکھتے ہیں کہ اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے والے کیسے جب اللہ کی پکڑ میں آتے ہیں تو انسان کے عجز کا اندازہ ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم نصیحت نہیں پکڑتے۔ اور اس سب ناشکرے پن اور تکبر کے بعد ہمیں لمبی زندگی بھی چاہئیے۔ مطلب ہماری حرص کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے۔

اپنی تو حالت اختر شیرانی کی طرح مرغ بسمل کی ہے جب وہ سلمیٰ سے لجاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
مرنے کے دن نہیں اور جینے کی حسرت نہ رہی
‎رحم کر رحم، کہ اب ضبط کی طاقت نہ رہی

میرا یہ مطلب نہیں کہ عین شباب میں ہی داغ مفارقت دے جائیں، مگر بزرگواروں سے اپنی بھی یہی درخواست ہے کہ زندگی کی دعا اتنی لمبی کی بھی نہ چاہئیے کہ پیر فرتوت بن جائیں اور رحمت کی بجائے دنیا کے لئے زحمت گنے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).