سرکاری افسر اور وزیر: خر سواری و خر برداری


ان ملاقاتوں کے عرصہ بعد میں لاہور گیا۔ ان سے ملا، تو میں نے دیکھا، وہ چند روز کے بعد رٹیائر ہو کر لندن جانے والے ہیں، اور ا ن کے ملازم ان کا سامان بکسوں میں بند کر رہے ہیں۔ میں اس سامان کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ سامان بڑے بڑے لکڑی کے بکسوں میں بھرا جا رہا تھا، اور سامان میں بڑے بڑے غالیچے بھی تھے۔ جو والیان ریاست نے ان کو بطور تحائف دیے۔ میں ان سے ملا، اور باتیں ہوئیں، تو میں نے افسوس کا اظہار کیا، وہ ہندوستان سے جا رہے ہیں، اور اب شاید ان سے ملاقات بھی نہ ہو۔

میرے اس اظہار افسوس پر آپ نے بتایا، کہ مہاراجہ بیکانیر  نے ان کو بطور وزیر اعظم بیکانیر پانچ ہزار روپیہ ماہوار پر رکھنا چاہا، مگر آپ نے انکار کر دیا ہے، ۔ جب میں نے ا ن سے یہ سنا، کہ آپ نے بیکانیر کے وزیر اعظم کے عہدہ سے انکار کر دیا ہے، تو میں نے کہا، کہ آپ کی غلطی ہے۔ اب آپ چار ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے ہیں، کیا حرج تھا، آپ پانچ ہزار روپیہ ماہوار پر بیکانیر چلے جاتے۔ میرے اس کہنے پر آپ نے جو جواب دیا، وہ مجھے اچھی طرح یاد ہے آپ نے فرمایا:۔

”سردار دیوان سنگھ میں نے اپنی ملازمت کا تمام حصہ گدھوں ( والیان ریاست) کو ہانکتے، اور ان کی سواری کرتے گزار دیا۔ اب میرے لئے یہ کیسے ممکن ہے، کہ میں ایک گدھے کو اٹھاتا پھروں، اور یہ گدھا میری سواری کرے۔ مجھ سے نہ ہو سکے گا“ ۔

پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے انگریز افسر گو بد چلن اور ظالم والیان ریاست کی ان کے وفا شعار ہونے کے باعث امداد کرتے تھے، مگر وہ فی الحقیقت والیان ریاست کو گدھا سمجھتے ہوئے اپنے دل سے نفرت کرتے تھے۔ اور اب جب کبھی میں سنتا ہوں، کہ انڈین سول سروس کا فلاں لائق اور تجربہ کار افسر فلاں صوبہ میں بطور سیکرٹری یا چیف سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے، تو مجھے سر جیمس فٹز پیٹرک یاد آ جاتے ہیں۔

یہ واقعہ اور ان کا جواب یاد آ جاتے ہیں۔ کیونکہ صوبہ جات کے وزراء کی تو عام طور یہ حالت ہے کہ ان میں سے نوے فصدی نالائق، کرپٹ، ان پڑھ اور خود غرض ہیں۔ جن کا مقصد اسمبلی کے ذریعہ وزرات حاصل کر کے لاکھوں روپیہ پیدا کرنا ہے، اور یہ الیکشن میں رشوتوں کے ذریعہ ایک لاکھ روپیہ خرچ کر کے دس لاکھ روپیہ پیدا کرنے کا پلان بناتے ہیں، اور انڈین سول سروس کے لائق ممبروں کو ان کے ہر ناجائز حکم کی تعمیل کرنی پڑتی ہے۔

گویا انگریزوں کے زمانہ میں تو انڈین سول سروس کے لائق ممبران گدھوں کو جیلوں میں بھیجتے تھے۔ اور اب یہ بے چار ے ان گدھوں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہیں۔ اور انڈین سول سروس کے ہر ممبر کی خواہش ہوتی ہے، کہ مرکزی گورنمنٹ میں رہے، اس کی خدمات صوبہ کے سپرد نہ کی جائیں۔

دیوان سنگھ مفتوں کی کتاب “سیف و قلم” سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon