ایک ٹیکسی ڈرائیور کو ریڈیو پاکستان کا ڈی جی بنانے کا پلان واشنگٹن میں بنا


کچھ روز قبل وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے اپنے ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ خورشید شاہ نے ریڈیو پاکستان میں 3 روز میں 800 افراد کو بھرتی کیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو ریڈیو پاکستان کا ڈی جی لگا دیا گیا، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، قانون پرعملدرآمد ہوتا تویہ سب لوگ جیلوں میں ہوتے۔ جس پر خورشید شاہ نے فواد چودھری کے الزامات کے خلاف ایوان میں تحریک استحقاق جمع کروائی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر بیان کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پاکستان کو لوٹ کر کھا گئے ہیں، ان لوگوں نے پی آئی اے، اسٹیل مل اور ریڈیو پاکستان میں اپنے ”چمچوں“ کو بھرتی کیا اور ایک ٹیکسی ڈرائیور کو ریڈیو پاکستان کا ڈی جی لگا دیا۔

یہ سن 2000ء کی سردیوں کے دن تھے، امریکا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک شکاگو میں میٹھے پانی کی سمندر جیسی بڑی جھیل مشی گن سے آنے والی ہوائیں اتنی سرد تھیں کہ حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے جائیں تو کوئی بھی جاندار چند منٹوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شکاگو میں ٹیکسی چلانے والے میرے دو دوست صفدر اور سرمد اکثررات کو ہی ٹیکسی چلاتے تھے۔ جس کی وجہ، رات کو روڈ پر ٹریفک کا کم ہونا، فن ایریاز میں سواری کا کافی رش ہونا اور رات کو تین چار بجے ٹیکسی چلانے والوں کا شکاگو کے ٹیکسی چلانے والے پاکستانیوں کی بیٹھک، شان ریسٹورنٹ پر مل کر گپ شپ کرنا، پراٹھے کھانا، چائے، کافی پینا معمول ہوتا تھا۔

میں دن کو باسکن روبن آئسکریم پر جاب کرتا تھا اور میری راتیں اپنے ٹیکسی چلانے والے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے، پاکستانی ریسٹورنٹس پر کھانے پینے اور گپ شپ میں گزرتی تھیں۔ مشہور ادیب افتی نسیم ( مرحوم) سے میری ملاقاتیں بھی وہیں پر ہوئیں۔ مرتضیٰ سولنگی بھی ان ہی ملاقاتوں کا لازمی حصہ تھا۔ مرتضیٰ امریکا آنے سے پہلے پاکستان میں اچھی لیول کے صحافی تھے اور کراچی میں بڑے اداروں میں انگریزی میڈیا میں کام کرتے تھے۔

مرتضیٰ سولنگی کا گھر ہم کچھ دوستوں کی بیٹھک بھی تھا۔ میرا تو شکاگو میں ایڈریس ہی مرتضٰی کا گھر تھا اور میری ڈاک اسی ایڈریس پر آتی تھی۔ مرتضیٰ سولنگی کی امریکن بیوی پیم مرتضیٰ کافی شفیق اور مہربان عورت تھی۔ مجھے اپنے بچوں کی طرح محبت دیتی تھیں، کچھ سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔ پیم جس ٹیکسی کمپنی میں مینیجر تھیں مرتضٰی اسی ٹیکسی کمپنی کی ٹیکسی چلاتا تھا۔ انہی دنوں مرتضٰی نے شکاگو کی ہی کسی یونیورسٹی میں جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے لئے داخلہ لیا اور وہ دن کو کلاس اٹینڈ کرتا اور رات کو ٹیکسی چلاتا تھا۔ امریکا میں محنت کو کوئی بھی عیب نہیں سمجھتا، پاکستان کے بڑے بڑے آفسر وہاں مزدوری کرتے ہیں، ٹیکسیاں چلاتے ہیں، امریکا کا بنیادی نعرہ، دعا اور نصب العین ہی God bless America یعٰنی امریکا پر خدا کی رحمت ہو، ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کی امریکا میں محنت اور مزدوری کرنے والے کی عزت ہے۔

مرتضیٰ سولنگی اورمیں سال دو سال دوست رہے پھر میں ٹیکساس چلا گیا اور مرتضیٰ سولنگی صحافت میں ڈگری کرنے کے بعد واشنگٹن چلے گئے اور وہاں ان کو ریڈیو وائس آف امریکا میں نوکری مل گئی۔ اس وقت کی وفاقی وزیراطلاعات شیری رحمان کے ساتھ ماضی میں ایک ساتھ کام کرنے کا تعلق اور انہی دنوں واشنگٹن میں رہنے کے کی وجہ سے وہاں رہائش پذیر آصف علی زرداری کے ساتھ ان کی کچھ ملاقاتوں کا نتیجہ ان کی ریڈیو پاکستان میں بطور ڈی جی تعیناتی میں نکلا، مگر وہ اس پوسٹ کے اہل بہرحال تھے

وقت گزرتا گیا، میں اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان پرلائیو سندھی اور اردو ٹاک شوز ”ست رنگ“، ”تالی دونوں ہاتھ سے“، ”قدم بہ قدم“ وغیرہ میں تجزیہ نگاراور اینکر کے طور پر کام کرتا تھا۔ میرے پروگرامز کے پروڈیوسر مسلم میرانی اور سعید اللہ محسود ہوتے تھے جبکہ شعیب بھٹہ ان سب پروگرامز کے کو آرڈینیٹر تھے۔ انہی دنوں میں نے ریڈیو ہیڈ کواٹر میں سنا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے واشنگٹن میں ریڈیو وائس آف میں کام کرنے والے صحافی مرتضیٰ سولنگی کو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ( ریڈیو پاکستان ) کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا ہے۔

میں اس کے بعد بھی کچھ سال ریڈیو پاکستان پر ٹاک شوزکرتا رہا مگر مرتضیٰ کے ساتھ میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ کبھی کبھار پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں ہلکی سی ہیلو ہائے ہوجاتی تھی بس۔ نہ کبھی اس نے مجھے دعوت دی اور نہ میں کبھی خود ایک بار بھی اس کے پاس گیا۔ مجھے تو مرتضیٰ کے آفس کا بھی علم نہیں تھا کہ ریڈیو پاکستان کی عمارت کے چوتھے فلور پر ہے یا تیسرے پر۔

میں مرتضٰی کا دوست شاید سال سوا شکاگو میں رہا، مگر اس کا انتہائی قریبی دوست سرمد شیخ اسلام آباد آیا کچھ ماہ میرے پاس رہا، مرتضیٰ کو میسج کرنے کے کچھ دنوں بعد اس کوڈی جی آفس میں شرف ملاقات کے لئے بلایا گیا، ملاقات سے واپس آنے کے بعد سرمد کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ سولنگی، وہی پرانا شکاگو والا یار ہے، تبدیل نہیں ہوا اور اس نے کہا ہے کہ ایک دو دن میں فون کروں گا، تفصیل سے بیٹھیں گے گھر پر، سرمد انتظار کرتا رہا، مرتضیٰ کی فون آج تک نہیں آئی۔ مرتضٰی اچھا دوست بالکل بھی نہیں ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتضٰی سولنگی ایک بہترین اعلیٰ تعلیم یافتہ تجربہ کار صحافی ہے اور ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ کے بلکل قابل اور لائق امیدوار تھا۔

مرتضٰی سولنگی نے بقول وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کے ریڈیو پاکستان میں 3 روز میں 800 افراد کو بھرتی کیا، مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیوںکہ میں نے اپنے ایک مہربان دوست کے مجبور کرنے پر نہ چاہتے ہوئے بھی لاڑکانہ کے ایک انتہائی غریب نوجوان کو ریڈیو پاکستان میں کچا ملازم رکھوانے کے لئے مرتضیٰ کو ایس ایم ایس کیا، تو اس نے یہ جواب دیا کہ میں کوشش کرتا ہوں، یہ کام آج تک نہیں ہوا، مجھے حیرت ہے یہ شخص تین دن میں 800 افراد کیسے بھرتی کر سکتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ مرتضٰی سولنگی بطور ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کتنا فائدہ مند رہا مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ اسلام آباد میں ریڈیو کی دنیا کے دو بہترین صحافی، میرے دوستوں آصف اورکزئی اور امجد قمر، سینئر صحافی اور ایک وقت میں میرے باس امتیاز گل صاحب اور انٹر نیوز یورپ کے ریڈیو پراجیکٹ پر کام کرنے والے سینئر آفیشلز جن کا مرتضٰی سولنگی سے واسطہ پڑا، ان سب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس شخص کو ایک مکمل پروفیشنل اور کوالیفائیڈ بندہ پایا۔ ریڈیو پاکستان کے ایمپلائیز کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ مرتضٰی سولنگی ریڈیو اسٹاف کو کوئی خاص فائدہ تو نہیں دے گیا مگر اس نے نقصان بھی نھیں دیا اور وہ ریڈیو کی دینا کے معاملات کو سمجھتا تھا۔

ریڈیو پاکستان کے پروگراموں کے ساتھ مرتضٰی کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی گاڑی میں ہر وقت ریڈیو سنتا تھا اور پروگراموں کی مانیٹرنگ وہ خود کرتا تھا، ایک مرتبہ میرے ایک پروڈیوسر دوست نے بتایا کہ آج ڈی جی صاحب نے فون کیا اور فلاں پروگرام کے ہوسٹ کو ہٹانے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ ہر پروگرام میں بے شمار غلطیاں کرتا ہے جو لائیو شو میں ناقابل برداشت ہیں، اورپروڈیوسر دوست نے بتایا کہ واقعی میں اس ہوسٹ کی غلطیاں ناقابل تلافی ہوتی تھیں۔

مرتضٰی آج بھی اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل کا بیورو چیف ہے، وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب کو شاید معلوم نہیں کہ اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو بیورو چیف لگا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).