نانی اماں کا گھر


نانی اماں کا گھر گرما میں ٹھنڈی چھاؤں اور سرما میں ہلکی دھوپ سا تھا۔ بچپن میں یہ خیال تھا کہ دنیا کے سارے اچھے اور سکھی گھر شاید نانی اماں کے گھر جیسے ہوتے ہیں۔ گارے مٹی کے بنے دو کچے کمرے، ایک ہوادار برآمدہ اور کھلا صحن۔ صحن کے دو حصے تھے۔ کمروں سے متصل آدھا صحن باقی نصف سے ذرا اونچا تھا جسے ہم ’چونترا‘ کہتے تھے۔ نچلے حصے میں بکائن کا ایک چھتری نما، خوبصورت سر سبز درخت ایستادہ تھا۔ دائیں کونے میں پانی کا نلکا لگا ہوا تھا جس پہ گوندنی کے چھوٹے سے شجر نے سایہ کر رکھا تھا۔ نلکے کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا۔ بائیں کونے میں چولھا لگا تھا اور ساتھ ہی مٹی کا تنور نصب تھا۔ کمرے، برآمدہ، صحن، چاردیواری سب توڑی ملی مٹی سے لیپ کیے ہوتے تھے۔ بہت صاف ستھرا، اجلا اور دھلا ہوا گھر دکھائی پڑتا تھا۔

بکائن کا درخت اتنا بھلا دکھتا تھا گویا قدرت نے صحن میں ایک سدا بہار اور خوش رنگ گلدستہ سجا دیا ہو۔ موسم بہار میں شاخوں پہ نوکیلے پتوں کی مہین کونپلیں پھوٹتیں اور دھیرے دھیرے سب شاخیں سبز پتوں کی اوڑھنی اوڑھ لیتیں۔ سورج کی کرنیں جب پتوں پہ پڑتیں تو ان کے گہرے سبز رنگ میں پیلاہٹ پھیل جاتی۔ دھوپ شاخوں سے چھن کر گزرتی تو زمیں پہ خوشنما بیل بوٹے کاڑھ دیتی۔ پھر اس پہ سفید اور نیلے رنگ کے پھولوں کے گچھے لگتے تو محسوس ہوتا کہ بکائن نے سبز پوشاک کی جگہ سفید اور نیلا لباس پہن لیا ہو۔

پھولوں کی ہلکی ہلکی خوشبو آس پاس پھیلی رہتی۔ شہد کی مکھیاں پھولوں سے رس لینے پہنچ آتی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پھولوں کے گچھے سبز ڈوڈیوں کے ہار بن جاتے۔
گھر کے صحن میں ایسا درخت ہو تو پھر آنگن پیارا تو لگے گا!

ہم سب خالہ زاد اکٹھے ہوتے تو خوب اودھم مچتا۔ سارا دن ہم مٹی کے گھروندے بناتے، بنٹے کھیلتے، بکائن کی ڈوڈیاں توڑ کر کھیلتے رہتے، ( بکائن کے پتے یا ڈوڈیاں توڑنے پہ نانی اماں بہت خفا ہوتی تھیں۔ انہیں بکائن سے پیار تھا)، آنکھ مچولی اور چور سپاہی کھیلتے، مٹی کے ٹوٹے گھڑوں کے ٹکڑوں کو گائے، بھینس، بکری بنا کے ان کو پتوں کا چارہ ڈالتے۔ خالائیں، نانی اماں اور سب بڑے دنیا جہان کی باتیں کرتے۔ پڑوس گھروں سے لڑکیاں بھی نانی اماں کے گھر سلائی کڑھائی کرنے اور نالے پراندے بننے آ جاتیں۔ بچے اپنی موج میں مست شور مچاتے پھرتے۔ دیگچیاں چمچ کھڑکتے اور سب مل بیٹھ کے کھاتے۔ شورو غل، گپ شپ اور قہقہے آنگن میں گونجتے رہتے۔ چڑیوں کے ڈار شاخوں میں بیٹھے غل مچاتے رہتے۔
آباد گھروں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

نانا ابو کی یادیں بھی اسی گھر سے جڑی تھیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب وہ شہر سے میرے لیے تین پہیوں والی سائیکل خرید لائے تھے۔ میری خوشی آسمان کو چھو رہی تھی اور وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے کھیلتا دیکھ رہے تھے۔ مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ وہ تکیے کے نیچے ہمارے لیے ٹافیاں رکھتے تھے۔ ہم ٹافیاں کھا کے خوش ہوتے تھے تو وہ ہمیں خوش دیکھ کے خوش ہوتے تھے۔
وہ شاید بیمار تھے۔ زیادہ تر بستر پہ لیٹے رہتے تھے۔ یا پھر بوڑھے ہو گئے تھے۔ بڑھاپے سے بڑی بیماری کیا ہو سکتی ہے! ان کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ زندگی بھر وہ اکیلے ہی گھر کا مضبوط سہارا بنے رہے۔ پانچ چھ ایکڑ زمین کی آمدنی ناکافی تھی تو کاروبار کی غرض سے گاؤں کے مرکزی بازار میں، مسجد کے پچھواڑے دکان کھول لی۔ جوان بیٹی کی بے وقت موت نے شاید ان کو جلدی بوڑھا کر دیا تھا۔

نانا جی دنیا سے جلدی چلے گئے۔ میں چوتھی جماعت میں تھا جب ان کا انتقال ہوا۔ تب اس گھر میں آنسو، سسکیاں اور آہیں دیکھی تھیں۔ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ صحن کے درخت بھی سر جھکائے کھڑے تھے۔ چڑیاں بھی خاموش تھیں۔

نانی اماں کے گھر میں موجود نانا جی کی دکان کے ترازو اور باٹ نہ صرف نانا ابو کی یاد دلاتے تھے بلکہ وہ ان کی ہمت اور بیٹیوں کے لیے کی گئی ان تھک کوشش سے بھرپور زندگی کا استعارہ بھی تھے۔ وزن کے وہ باٹ بعد میں بیٹیاں اپنے اپنے گھر لے گئیں۔ شاید باپ کی شفقت محسوس کرنے اور ان سے جڑے رہنے کا یہی ایک راستہ بچا تھا۔ نانا ابو کی محبت نانی اماں اور خالاؤں کی باتوں اور آنکھوں سے چھلکتے آنسوؤں سے صاف دکھائی دیتی تھی۔ ان سے ملنے والی ٹافیوں کی مٹھاس آج بھی یادوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔

کچے گھروں کو لپائی کرنے کا جب موسم آتا تو ہم سب بچوں کی موج لگ جاتی۔ کھیلنے کو وافر مٹی دستیاب ہوتی۔ گندھی مٹی سے ہم اوٹ پٹانگ مورتیاں بناتے۔ کمروں کے فرش پہ لپائی کے بعد جب ہلکی سی نمی رہ جاتی تو کانسی کے چھنے رگڑے جاتے تو فرش پہ نکھار آ جاتا۔ ہم فرش پہ لیٹ کر ٹھنڈی مٹی سے اپنے گالوں کو مس کرتے۔ ٹھنڈک کو وہ احساس آج بھی یادوں کے دریچوں میں کانسی کے کسی برتن کی طرح پڑا ہے۔
لپائی کے بعد پورا گھر ایک دم نیا ہو جاتا۔

ہم کبھی کبھی نانی اماں کے گھر سو جاتے تھے۔ رات کو بستر پہ لیٹے نانی اماں سے کہانیاں سنتے۔ ہمیں نانی اماں کی کہانیاں بے حد پسند تھیں۔ جن، بھوت، دیو، پریوں اور مافوق الفطرت مخلوق کی کہانیاں، سن سنتالیس کے بٹوارے کی کہانیاں، نانی کے گاؤں میں بستے ہندوؤں کے مذہبی رسم و رواج، شادی بیاہ کی ریت، مرگ پہ میت کو جلانے اور بٹوارے کے وقت انسانی بے بسی کی کہانیاں۔ بستے گھر اجڑنے کی کہانیاں۔ زمیندار، نمبردار اور تاجر ہندوؤں کے خالی ہاتھ گھروں سے نکلنے کی سچی کہانیاں۔ ہم افسردہ سے ہو جاتے اور سوچتے کہ وہ خوشحال زمیندار جب اپنی حویلیاں، زمینیں، مال ڈنگر، کاروبار، گاؤں، دوست یار چھوڑ کر گئے ہوں گے تو ان کی آنکھوں میں کتنی بے بسی ہوگی۔

یہ سب باتیں پرانی ہوئیں۔ وقت بدل گیا۔ نانی اماں کے آنگن میں بکائن کی چھاؤں میں کھیلتے وہ بچے نہ جانے کب بڑے ہو گئے۔ کئی سال بیت گئے۔ شادیاں ہوئیں، بال بچے ہوئے اور زندگی کی اونچی نیچی راہوں کی خاک چھاننے لگے۔ زندگی کے جھمیلوں میں یوں الجھے کہ گزرتے وقت کا احساس نہ ہوا۔ بچپن کی بے فکری کا دامن جو ہاتھ سے چھوٹا تو گھریلو زندگی کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب گئے۔

ننھیالی گھر بھی بدل گیا۔ گارے مٹی کی جگہ اینٹ سیمنٹ نے لے لی۔ بکائن کا وہ درخت بھی نہ جانے کب کٹ گیا۔ اس کے پھولوں کی سوندھی خوشبو بھی رخصت ہوئی۔ چڑیوں نے بھی نئے بسیرے ڈھونڈ لیے۔ نانی اماں جو ایک ڈوڈی، ایک پتہ توڑنے نہ دیتی تھی ہمیں۔ ہم بکائن کی نچلی شاخ سے چمٹ کر جھولتے تھے تو اماں ہماری ہڈیاں توڑنے تک کی دھمکی داغ دیتی تھیں۔ بکائن جب کٹی ہو گی تو انہیں کتنا دکھ ہوا ہوگا۔

پھر نانی اماں گاؤں سے شہر جا بسیں۔ نہ جانے کس دل سے گئی ہوں گی یہ گھر چھوڑ کر۔ کہا کرتی تھیں کہ اس گھر میں میری ڈولی آئی تھی۔ اب میرا جنازہ یہیں سے اٹھے گا۔ اماں کے شہر آنے کے بعد گھر کافی عرصے تک ویران پڑا رہا۔ دھوپ میں کھڑا خاموش جلتا رہا۔ ٹھنڈ میں ٹھٹھرتا رہا۔ جگہ جگہ سیمنٹ اکھڑنے لگا اور اینٹیں مٹی ہونے لگیں۔ نلکے کا پانی خشک ہوگیا۔ گوندنی کا درخت بھی سوکھ گیا۔ ترازو باٹ سب بکھر گئے۔

چند سال کی ویرانی جھیلنے کے بعد آخر نانی اماں کا وہ گھر آج اونے پونے بک گیا۔ اس گھر میں پلنے والی بیٹیاں اور ننھیال گھر میں اودھم مچانے والے وہ بچے سب اداس ہیں۔ گھر بکنے پہ نانی اماں کی آنکھوں میں وہی بے بسی ہے جو سن سنتالیس میں نانی اماں کے گاؤں کے ہجرت کرتے ہندوؤں کی آنکھوں میں تھی۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti