مندر کی کہانی میری زبانی


حسب معمول روزانہ کی طرح کل بھی یونیورسٹی کے لئے گھر سے روانہ ہوئی۔ ہمارے ایک سینئر بھائی جن کا نام شعیب ہے کہنے لگے چلو سوامی نارائن مندر چلتے ہیں۔ مندر سب نے ایک ہو کر کہا، ہاں ہاں چلو چلتے ہیں۔ ہوٹل سے نکل کر یونی گئے فریش ہوئے اور لڑکیوں جس میں روسہ، میں، فائزہ اور ندا تھے رکشہ کرا کر مندر کی جانب روانہ ہوئے، لڑکے اپنی موٹر سائیکلوں پرآئے۔ مندر کے داخلی دروازے پرہمارے رکشے کو روک لیا گیا اور گارڈنے پوچھا کہ کون ہو؟ ہم نے کہا ہم اسٹوڈنٹ ہیں اور وفاقی اردو یونی سے ایک اسائمنٹ کے سلسلے میں آئے ہیں اور مسلمان ہیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد ہمیں کہا گیا کہ صرف باہر سے دیکھنا اور تصویریں مت بنانا ہم نے کہا اچھا۔

جیسے تیسے کر کے ہم مندر کے احاطے میں پہنچ گئے اب پھر گارڈ آگیا کہ آؤ آپ لوگوں کو باہر سے ہی دکھا دو تو ہم نے کہا ہمارے دوست بھی آرہے ہیں آپ رک جائیں، کیوں کہ ہم تو پورا مندر اندر سے دیکھنے کے ارادے سے ہی آئے تھے اور ہمارے دوست شعیب کے ایک مہاراج جاننے والے تھے۔ گارڈ نے کہا لڑکے ہیں یا لڑکیاں جوکہ آرہے ہیں ہم نے کہا لڑکے، تو اس نے کہا پھر آپ لوگوں کا یہاں کھڑا ہونا فضول ہے کیوں کہ لڑکوں کا داخلہ منع ہے۔ اچھا جی یہ کہہ کر میری دوست فائزہ نے شعیب کو کال کی تھوڑی دیر بعد وہ بھی اندرآگئے جن میں محسن بن رشید، شعیب اور نظر بھائی تھے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کے پاس اجازت نامہ نہیں ہے لہذا آپ لوگ اندر نہیں جا سکتے۔ آپ لوگ میرے ساتھ آفس میں چلو اور آفس اسٹاف سے بات کرلو وہ ہمیں آفس لے جایا گیا راستے میں ہندوؤں کے گھر تھے ان کی مکمل کمیونٹی بنی ہوئی تھی۔ اورزیادہ تر گھر پیلی اینٹوں سے بنے تھے جوکہ قدیم اور انگریزوں کے دور کے تھے راستے میں ایک ”گائے گھر“ نظر آیا جسے ہم مسلمان کمیلہ کہتے ہیں۔ وہاں طرح طرح کی گائیں بندھی ہوئیں تھی اور گائے کی تصاویر بھی اس گائے گھر میں لگی تھیں۔

اب ہم آفس پہنچے وہا ں موجود ایک سر نے کہا بیٹا آپ لوگ اجازت نامے کے بغیر اندر نہیں جا سکتے صاف انکار کیا۔ اور کہا آپ لوگوں میں سے کل کوئی 2 لوگ آجانا اور اجازت لے کر پھر دوستوں کے ساتھ دیکھ لینا مندر۔ لو بھئی یہ صاحب تو صاف طور پر لال جھنڈی دکھا کر چپ ہوگئے اور ہم وہاں سے نکل کر غصیلے، پھولے ہوئے اور مایوس چہرے لے کر اپنی منزل کی جانب سفر کے لئے دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔ اتنے میں شعیب ہمارا بھائی ہوا کا جھونکا بھاگتا ہوا گیا اور ہم اس کے پیچھے پیچھے، اچانک مندر کے دروازے پر اسے ہم نے کسی سے بات کرتے مسکراتے دیکھا۔ یہ وہی مہاراج تھے جن کو شعیب جانتا تھا اور ان کا نام وجے مہاراج تھا۔ بس ان کو دیکھ کر ہمارے مایوس چہرے کھل اٹھے ہم نے ان کو داستاں غم بتائے کہ کس طرح ہمیں یہاں وہاں گھمایا گیا۔

تو وہ کہنے لگے بیٹا آج کل آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ کس طرح کے حالات ہیں سیکورٹی کا مسئلہ بھی ہے۔ ہم نے کہا جی درست کہا آپ نے۔ پھر وہ کہنے لگے آجاؤ بچو مندر دکھاؤ ہم نے جوتے اتارے اور مندر کے صحن میں داخل ہو گئے ہمیں تعجب ہوا کہ مندر نیچے ہے اور یہ ہمیں اوپر کی جانب لے جا رہے ہیں خیر ہم سب چپ رہے آگے بڑھے وہاں رادھا کرشن کی مورتیاں دیکھی ان کا مندر اور مندر پر لگی چاندی کی جالیوں کو دیکھا۔

وجے مہاراج نے بتانا شروع کیا کہ یہ مندر“ شری سوامی نارائن“ کے نام سے مشہور ہے۔ کراچی کا قدیم و تاریخی مندر ہے اور 150 سال پرانا ہے۔ ساتھ ہی اس مندر کو بنانے والے سوامی جی کا بھی ایک مندر کی طرح کا چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں ان کی تصاویر لگی ہوئیں تھی۔ رادھا کرشن کے مندر کے باہر دو ایک ہی شکل کے پہرہ دار سپاہی کھڑے تھے ان کا نام پوچھنے پر مہاراج نے کہا کہ یہ رادھا کرشن کے محافظ ہیں اور دونوں بھائی تھے جن کا نام جے اور وجے تھا۔ اب اور آگے بڑھے تو گنیش جی کا مندر اور ساتھ ہی شیو کا مندر تھا اور باہر گنیش جی کی سواری موجود تھی اور آگے بڑھے تو“ ہنومان کا مند“ر تھا، ساتھ ہی 3 پتھر رکھے تھے باہر کی طرف اور ایک دیا بھی جل رہا تھا۔

مہاراج نے بتا یا کہ اس پتھر پر سرسوں کا تیل اور سُندور لگایا جاتا ہے اور منتیں مانی جاتی ہیں جوکہ پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ہم نے مندر کے اوپر لگے لال اور سفید پٹی والے جھنڈے کا پوچھا تو اس کے متعلق بھی بتایا مگر معذرت کے ساتھ یہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اس کے بعد اور بھی باتیں کی۔ چونکہ مندر کے اندر اور مورتیوں کی تصاویر بنانے کی اجازت نہیں تھی تو ہم نے مہاراج کے ساتھ صحن میں تصاویر بنوائیں اور کافی دیر بعد ان سے رخصت لی ساتھ ہی ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے شفقت، محبت اور پیار بھرے خلوص سے ہمیں کہا کہ بیٹا آپ لوگوں کو پریشانی کا سامنا کر نا پڑا معذرت چاہتا ہو، ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ ان کی ایک بیٹی آ گئی جس کا نام لکشا تھا۔

میں نے اور روسہ نے اس سے خیریت دریافت کی۔ اب کافی ٹائم ہوچکا تھا کیوں کہ ہم میں سے کسی نے گھر میں ایک میسج تک نہیں کیا تھا کہ ہم آج گھر دیر سے آئیں گے لہذا اب ٹینشن ہوئی اور مہاراج کو الوداع کہہ کراپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے گھر پہنچ کر امی سے خوب ڈانٹ کھائی اور پیارے پیارے القابات سے مجھے انہوں نے مستفید کیا، کیوں کہ صبح سے نکلی ہوئی تھی اور رات 7:30 پر گھر پہنچی۔ مگر اس مندر میں آکر یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم اجنبی لوگوں میں تھے یہ پھریہ کہ مندر کے پجاری ہماری بلی نہ چڑھا دیں۔ اور ہمیں جو عمارت دیکھ کر تعجب ہوا تھا کہ اس مندر میں کیوں نہیں لے گئے تو وہ مندر نہیں تھا سکھوں کا ”گورودوارا ”تھا جوکہ مندر کے ساتھ ہی بنا ہوا تھا۔ مہاراج نے بھی وہی کہا جو میں اکثر کہتی ہوں کہ مجھے انسان ہی رہنے دو اور انسانیت تمام مذاہب سے پہلے ہے تو خدارا یہ ذات پات، مذہب، رنگ و نسل اور فرقہ وقریت کو چھوڑو محبت دو!محبت لو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).