پنجابی کا انتم سنسکار


اکہتر برس بیت چکے ہیں، لیکن لاہور سکھوں کے دلوں میں کسی محبوب خیال کی طرح تازہ ہے۔ پنجابیوں سے چھین کر انگریز نے اس دھرتی کے دو ٹکڑےکیے، ایک مسلمانوں کی اور دوسرا ہندوں کی جھولی میں ڈال دیا۔ پنجاب مذہبی شدت پسندی کی سرحدوں سے دور آباد ایک ثقافت تھی۔ یہ وارث شاہ کے خیال میں لپٹی تحریر تھی، یہ خواجہ فرید کی سوچ کا نخلستان تھی، یہ سلطان باہو کے لبوں پے آئی کافی تھی، یہ بلھے شاہ کو تھیا تھیا تھرکاتا سنگیت تھی۔ یہ پانچ ندیوں کے بیچ بہتی ہوئی تہذیب کا وہ دھارا تھی جسے چھونے اور اپنانے کی حسرت نے ہزاروں میل دور آباد انسانوں کو صدیوں بے چین رکھا۔ جدید دور کے مورخین اس بات پے متفق ہیں کہ تاریخ کو جانبداری کی اسیری سے آزاد ہوتے ہوتے دو سو سال لگتے ہیں۔ شاید آنے والی نسلیں سمجھ سکیں گی کہ برصغیر کی تقسیم دراصل صرف پنجاب کی تقسیم تھی جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کے خون سے گودی گئی۔

موت قدرت کے نظام میں توازن قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ کروڑوں لوگ بٹوارے کا دکھ دل میں لئے اس جہان فانی سے چلے گئے ورنہ اس خطے میں آباد نسلِ انسانی تاریخ کے بھنور سے باہر نہ آ پاتی۔ پاکستان کا دل قرار پانے سے پہلے لاہور کے پاس اس سے بڑا اعزاز تھا۔ یہ پنجاب کا دل تھا اور سب اسے سمجھتے بھی تھے۔ ا ب یہ پاکستان کا دل ضرور ہے لیکن شاید سب سمجھتے نہیں۔

پنجابیوں کو لاہور پے اتنا فخر تھا کہ سارے ہندوستان کو معلوم تھا، ”جنے لاہور نئی ویکھیا او جمیا ای نئی“ یہ ہمارا نہیں۔ یہ گنج بخش فیضِ عالم مظہر ِنورِخدا کا شہر ہے۔ یہ امرتسر اور ننکانہ صاحب کے درمیان ازلوں سے کھچا ہوا ایک پل ہے۔ سکھوں کے دس گروؤں میں گرو رام داس کا چوتھا نمبر ہے۔ انہوں نے سکھوں کے مقدس ترین شہر امرتسر کی بنیاد رکھی اور اسے آباد کیا۔ یہ شہر انہوں نے اپنے مرشد کے نام پے تعمیر کیا لیکن خود اپنی وصیت کے مطابق لاہور میں دفن ہیں۔ کیونکہ لہور لہور اے۔

لوگ ادھر سے ادھر تو چلے گئے لیکن لاہور سے وابستگی ساتھ لے گئے۔ اس پار جا کر گاؤں، محلے اور گھر لاہور کے نام پے آباد کیے۔ کیندر(مرکز) کے پردھانوں (رہنماؤں ) کو خبر ہوئی تو انہوں نے لوگوں کو چندی گڑھ کا جھانسہ دیا۔ نہرو نے فوراً البرٹ مئیر نامی امریکی انجینئر کو انڈین پنجاب میں ایک نیا شہر بسانے کا منصوبہ سونپا۔ البرٹ شہر کا خاکہ بنا کر اپنے وطن لوٹ گیا، لی کاربوزئیر (Le Carbousier)نے اس کی جگہ لی اور منصوبے میں رنگ بھرا۔ پہاڑوں سے بہتے برساتی نالے کو روک کر اڑھائی مربع میل کے رقبے پے ایک جھیل بنائی، کھلی کھلی سڑکیں تعمیر کیں، بھانت بھانت کے درخت لگائے۔ 1966 میں جب شہر مکمل ہوا تو یہ بلکل اسلام آباد جیسا تھا۔

ویسے ہی پہاڑ، راول جھیل کے جیسی ْسخنا جھیل، ویسے ہی بلاک اور سیکٹرفیصل مسجد کی جگہ چندی مندر۔ ایک اِس پنجاب کے کنارے دوسرا اس پنجاب کے کنارے۔ ہاں کچھ فرق بھی ہے۔ ماضی قریب تک اسلام آباد کا اپنا ائیرپورٹ نہ تھا۔ مطلب راول پنڈی کنٹونمنٹ میں واقع ائیر پورٹ کو اسلام آباد سے منسوب کیا گیا تھا۔ چندی گڑھ ہر قسم کی عسکریت اور بحریت سے مبرا ہے۔ اسلام آباد کا موسم قدرے بہتر ہے۔ چندی گڑھ میں برسات میں حبس ہوتی ہے اسلام آباد میں حبس بے جا کا کوئی مستقل موسم نہیں۔ چندی گڑھ میں پنجاب کے فیصلے ہوتے ہیں، اسلام آباد میں ملکی فیصلوں پے رسمی سی بحث ہوتی ہے۔

لاہور میں نہ اتنی خوبصورتی تھی، نہ درخت، نہ کشادگی لیکن روحانیت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو زندگی کے ساحلوں سے مسلسل ٹکراتا رہتا تھا۔ تقسیم ہوئی تو جسم سے روح کا ناطہ ٹوٹ گیا۔ اب ایک مزاج بچا ہے جو کافی بگڑ گیا ہے۔ کھنڈرات بتاتے ہیں کہ عمارت عالیشان تھی۔

سرحد کے اْس پار چار بڑے لہجوں میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ لیکن ہندوستانی پنجاب میں زیادہ پنجابیوں کو اس بات کا ادراک نہیں۔ شہروں میں بالخصوص بیک وقت کئی لہجے اور انداز چل رہے ہوتے ہیں۔ ادب، شاعری اور سنگیت کی نشونما یکساں ہے۔ سکھ بھلے کینیڈا میں ملے، ناروے میں نظر آئے یا سڈنی میں ٹکرا جائے، آپ ست سری اکال کہہ کے دیکھ لیں وہ آپ سے پنجابی کے علاوہ کسی زبان میں بات نہیں کرے گا۔ آپ سے ملک پوچھنے میں اور مذہب ٹٹولنے میں پہل نہیں کرے گا۔ دور جدید میں یہ پنجابی زبان کی پہچان ہیں اور پنجابی کے مستقبل کی امید۔

پنجاب کی تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان پنجابی زبان اور تہذیب کو ہوا ہے۔ سرحد کے اِس طرف بہت کچھ بدل گیا ہے اور بہت کچھ ختم ہونے کو ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق آیندہ آنے والے پچاس سالوں میں اس خطے سے پنجابی کا بھاری بھرکم وجود ختم ہو جائے گا۔ اور شاید اس دن کا ماتم کرنے کے لئے ہم میں سے چند ایک ہی اس دنیا میں ہوں۔ یہ ختم ہونے والی باتیں محض مستقبل بعید کا افسانہ لگتی ہیں، لیکن آپ غور کریں پچھلے پچاس سال میں کیا کیا چیز یں نہیں تاریخ کے قبرستان میں چلی گئیں۔ انسان بیک وقت کئی زبانیں سیکھ سکتا ہے۔ لیکن سماجی حوالے کے تناظر میں ایک یا دو زبانیں جنہیں زیادہ لوگ سمجھتے ہوں وہ غالب آجاتیں ہیں۔ دھیرے دھیرے جو لفظ آپ کی یاداشت میں بلکل صحیح بھی محفوظ ہوتے ہیں وہ آپ کی زبان پے آنے سے کتراتے ہیں۔

دراصل تہذیب کا تعلق زبان کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو زبان یہاں بولی جائے گیا اس کی تہذیب بن بلائے آ جائے گی۔ اب انگریزی آئے گی۔ دو صدیاں انگریزی کا مقابلہ کرنے والی نسل جس کی اکثریت اس لیے گریجویشن نہ کر سکی کہ انگریزی آڑے آ جاتی تھی اب بغیر کالجوں اور کتابوں کے بڑی تیزی سے انگریز ی سیکھ رہی ہے۔ ہر ہاتھ میں انگریزی کی کتاب ہے جسے سادہ لوگ سیل فون کہتے ہیں۔ اور پھر سیاسی چے میگوئیاں بھی زور پکڑ رہی ہیں کہ مغربی پنجاب تقسیم ہو رہا ہے۔ پہلے مذہب کی بنیاد پے ہوا تھا اب زبان کی بنیاد پے ہو گا۔

لاہندی پنجابی (Seraiki) بولنے والے ماجھی پنجابی بولنے والوں سے الگ ہوں گے۔ آئی گھڑی کو کون ٹال سکتا ہے۔ لیکن کیا ہی بہتر ہو اب کی بار پنجابی کو اچھی طرح سے بانٹ لیا جائے۔ پنڈی کشمیر والے پوٹھوہاری کہلائیں، ہزارہ والے ہندکو اپنائیں، جھنگ والے جھنگوچی ہو جائیں، سرگودھا اور خوشاب والے شاہ پوری لے لیں، بھکر لیہ والے تھلوچی پے قبضہ کر لیں، ریاستی بہاولپور والوں کو سونپ دی جائے۔ کیونکہ جب تک یہ زبان ہے شاید پاکستان کے سیاسی اور معاشی مسائل حل نہ ہو پاویں گے۔

صوبے بننے چاہئیں لیکن زبان کی بنیاد پے نہیں۔ زبانیں کسی کی جاگیر نہیں ہوتیں، یہ انسانیت کا ورثہ ہوتی ہیں۔ یہ مذہب اور علاقے کی تفریق سے بالاتر ہوں تو افغانستان کے رومی کو ترکی لے جا کر فارسی ادب کے تخت پے بٹھا دیتی ہیں۔ لبنان کے مسیحی خلیل جبران کو امریکہ لے جا کر عربی کے شاہکار لکھواتی ہیں۔ اور اگر زبان کو بانٹ لیا جائے تو پھر صدیاں بانجھ ہو جاتی ہیں پھر وارث شاہ، بھٹائی اور خوشحال خٹک پیدا نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).