’’سورج پہ کمند‘‘ ڈالنے والے آشفتہ سروں کی داستان


اس وقت میرے ہاتھ میں 592 صفحات پر مبنی ضخیم کتاب ’’سورج پہ کمند‘‘ ہے جس کو برطانیہ میں رہنے والے ڈاکٹر حسن جاوید اور ماہر تعلیم محسن ذوالفقار نقوی نے تالیف کیا۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے لاشعوری طور پر میں اپنے بچپن میں پہنچ گئی ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے اپنے مختصر سے مکان کے احاطے میں وہ چھپر نما کمرہ آرہا ہے کہ جسے میرے انقلابی نوجوان بھائی نے چٹائی، ٹہنیوں اور گھانس پھونس سے بنایا تھا۔ اس کمرے میں وہ اپنے ہم خیال انقلابی دوستوں کے ساتھ نشستوں میں مصروف رہتے۔ اس وقت وہ جامعہ کراچی کے طالب علم اور طلبہ تنظیم این ایس ایف کے فعال رکن تھے۔ یہی وہ چھپر تھا کہ جس کے تلے میرے بھائی اور انکے انقلابی دوستوں نے ایوبی آمریت کیخلاف جدوجہد کے تانے بانے بُنے، پمفلٹوں اور شہر کی دیواروں پر لکھائی کی منصوبہ بندی کی، یہ اسی چھپر کی دین ہے کہ جس کے سائے تلے میں نے کم عمری سے ہی الفتح، منشور اور لیل و نہار جیسے جمہوریت پسند رسائل سے آشنائی حاصل کی اور ڈھیروں ملکی اور غیرملکی ادب پڑھنے کی شروعات کیں۔ یہی وہ رسائل اور ادب تھا کہ جس نے مجھ میں وہ بیج ڈالے کہ جس کا ثمر میں اپنے اندر جمہوری اقدار اور انصاف کی بالادستی کی صورت محسوس کرتی ہوں۔ پھر جب عملی جدوجہد کا خود حصہ بنی تو اندازہ ہوا کہ انصاف اور جمہوری اقدار پر مبنی معاشرے کے خواب کا حصول کتنا کٹھن ہے۔ یہ تو ان آشفتہ سروں کے وجود کا مہر ہے کہ جو اپنے لہو کی روشنی سے آج بھی تاریک راہیں اجال رہیں ہیں
یہی تو ہم سے رفیقانِ شب کو شکوہ ہے
کہ ہم نے صبح کے رستے پہ خود کو ڈال دیا
(حبیب جالبؔ)
’’سورج پہ کمند‘‘ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے جمہوری حقوق کی بحالی اور اسکو انجام دینے والے ایسے ہی آشفتہ سروں کی زندگیوں کے متعلق اہم دستاویز ہے کہ جنہوں نے جمہوری اقدار پر مبنی انصاف پسند معاشرے کا خواب ہی نہیں بلکہ انکی تکمیل کیلئے عملی جدوجہد میں حصہ بھی لیا، وہ پابندِ سلاسل بھی رہے، صعوبتیں بھی برداشت کیں، ظلم و جبر کی صورت میں زیرزمین روپوشی میں بھی کام جاری رکھا اور اصولوں پر سودا بازی نہ کرتے ہوئے جان بھی وار دی، یہ وہ تھے ۔۔۔ جو تاریک راہوں میں مارے گئے

محسن ذوالفقار

جھلستی فضا میں ’’سورج پہ کمند‘‘ ڈالنے کا یہ پُرخطر راستہ اختیارکرنے والوں نے آنے والی نسلوں کو ایک ایسے معاشرے کا تصور دیا کہ جس کی بنیاد جمہوریت، انصاف پسندی اور مساوات پر قائم ہو۔ پاکستان کی طلبہ تحریک کا کوئی ذکر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اسکی بانی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذکر کے بناء مکمل نہیں ہوسکتا اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ دراصل یہی دو تنظیموں کی تاریخ ہی پاکستانی طلبہ تحریک کی تاریخ ہے۔
1950ء میں این ایس ایف کی بانی جماعت ڈی ایس ایف کی آفرینش نظریاتی طور پر جڑے ترقی پسند نوجوانوں کے ہاتھوں انجام پائی جن کی اکثریت کا تعلق طب سے تھا، مثلاً ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر ہارون، ڈاکٹر رقان علی ہاشمی، ڈاکٹر ایوب مرزا، ادیب رضوی وغیرہ اسکے علاوہ عابد حسن منٹو، محمد کاظم، سلیم عاصمی اور غالب لودھی وغیرہ بھی شامل تھے۔ جمہوریت کے داعی عشاق کا یہ قافلہ پاکستان کے سماجی اور سیاسی تناظر میں عوام کی معاشی اور سماجی خوشحالی کا متمنی تھا اور اس پر یقین رکھتا تھا کہ اس ملک کی ترقی میں طلبہ، مزدور اور کسان برابر کے حصہ دار ہوں۔ ڈی ایس ایف ملکی حالات کا جائزہ عالمی تحریکوں کے تناظر میں لے رہی تھی۔ عوام کی تقدیر بدلنے کی تحریک کا آغاز ان نوجوانوں نے 7 جنوری 1953ء میں شروع کیا۔ پرامن انداز میں شروع ہونیوالی اس تحریک کو کہ جس نے جلد ہی ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرلی تھی۔ رجعت پسند حکمرانوں نے اسے تشدد میں تبدیل کردیا جس کے نتیجے میں کئی کارکنوں کو جیل میں بھرتی کیا گیا تو بہت سی نوجوان قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ اس تحریک کے میرِ کارواں ڈاکٹر محمد سرور نے اس وقت کے وزیراعظم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’’آپکو شاید یہ احساس نہیں کہ آج آپ اس ملک کے ناپسندیدہ شخص بن چکے ہیں‘‘ تاہم تحریک کے اختتام پر طلبہ کے مطالبات نہ صرف منظور ہوے بلکہ ریڈیو سے اسکا اعلان بھی کیا گیا (8 جنوری شہداء کی یاد میں یوم سیاہ قرار دیا گیا) جمہوری طاقت کے غلبہ سے خوفزدہ ہونے والی حکومت پاکستان نے ڈی ایس ایف کے علاوہ ایسپو (آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) پر پابندی لگا دی اور یہی وہ سال تھا کہ جب پاکستانی حکمرانوں نے معاہدہ بغداد میں شامل ہو کر امریکہ کی غلامی قبول کی۔

ڈاکٹر حسن جاوید

1954ء میں ڈی ایس ایف پر پابندی کے بعد اسکے سرگرم کارکن خاموشی سے پہلے سے قائم ایک حکومت نواز تنظیم این ایس ایف میں شامل ہوتے گئے اور 1956ء میں اس تنظیم پر باقاعدہ غلبہ حاصل کرلیا۔ اسطرح ملک کی تاریخ میں ایک ایسی انقلابی جماعت نے سرخروئی حاصل کی جس نے کئی دہائیوں طلب? سیاست پر راج کیا۔ انقلاب کی جدوجہد میں کئی نام ہیں مگر چند اہم ناموں میں ایم اے محبوب، جوہر حسین، آغا جعفر، انوار احسن صدیقی، معراج محمد خان، فتح علی خان، اختر احتشام، رشید حسن خان، امیر حیدر کاظمی، جام ساقی،صبغت اﷲ قادری، شیر افضل ملک کا شمار ہے۔ اس جدوجہد میں خواتین نے بھی نمایاں کردار ادا کیا چند نام حمزہ واحد، رضی کمالی، زرینہ شفیع، شمیم زین الدین، زاہدہ تقی، عقیلہ اسلام، شائستہ زیدی وغیرہ ہیں۔ پھر بعد کی دہائیوں میں بے شمار جانثار کارکنوں کا اضافہ ہوتا ہی چلا گیا۔ وقت کے ساتھ واقعات کے حوالے سے عملی طور پر مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ کبھی کانگو کے لوممبا کی موت پر احتجاج تو کبھی امریکہ کے سامراجی عزائم اور اتحادی ایوب خان کی فوجی حکومت کیخلاف جلوس تو پھر کبھی جبل پور بھارت میں مسلم کش فسادات کے خلاف مظاہرے تو کبھی معاہدہ تاشقند کے خلاف احتجاجی سلسلے، غرض ہر بار احتجاج ان نوجوانوں کی انصاف پسندی کا ثبوت دیتا اور اسکی قیمت بھی ادا کرتا کہ۔۔۔ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
طلبہ کبھی آمر حکومتوں تو کبھی رجعت پسند تنظیموں کے تشدد کا شکار رہتے۔ معراج محمد خاں کے حوالے سے ایک واقعہ اہم کہ جب انہیں ملتان جیل سے رحیم یار خان جیل منتقل کرنے کیلئے ریلوے اسٹیشن ہتھکڑیوں میں پیدل لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں اسکول کے بچے انہیں عادی مجرم سمجھ کے چور، چور کے نعرے لگانے لگے اور پتھر سے نشانہ بنانے لگے۔ اس تجربے سے گزرتے ہوئے انکی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
خاک برسر چلو خوں بداماں چلو


پھر 1974ء میں اساتذہ کی ہڑتال کے دوران لاٹھی چارج کا شکار ہو کر معراج محمد خان اپنی ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگئے۔ جان کا نذرانہ دینے والوں میں جہاں بے شمار نام ہیں وہیں نذیر عباسی کا نام نمایاں نظر آتا ہے جو ایک غریب ہاری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ساتھ ہی تعلیم یافتہ بھی، ضیاء الحق آمر کے دور میں انکی گرفتاری اس وقت ہوئی جب انہوں نے ’’غاصبوں، آمروں سے اقتدار چھین لو‘‘ کے پمفلٹ کی تقسیم کی اور کراچی ماڑی پور کے فوجی کیمپ میں قید کے دوران تشدد کے سبب جان دی۔ سامراجیت اور حکمران طبقہ کی ناانصافیوں اور جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف این ایس ایف کے نوجوانوں کی جدوجہد غیرمعمولی رہی جو حکومت کیلئے خطرہ ہی رہی۔ انکی طاقت کا اندازہ کرتے ہوئے ہی بھٹو نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا:
’’دنیا کے فیصلے تو واشنگٹن اور ماسکو میں ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے فیصلے ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہوتے ہیں‘‘
جب تک این ایس ایف کی صفوں میں اتحاد رہا اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوئی رجعت پسند جماعتیں اس سے صف آراء ہونے سے ہراساں رہیں لیکن ’’سورج پہ کمند‘‘ کے مطالعہ سے نہ صرف مجھے یہ آگہی ہوئی کہ تحریکیں کس طرح کامیاب ہوتی ہیں اور کس طرح ان میں نفاق کا بیج بویا جاتا ہے، کبھی بیرونی سطح پر جمہوریت دشمن اور رجعت پسند قوتوں کی مدد سے تو اندرونی طور پر اناپرستی اور جذبات پر مبنی فیصلوں اور بڑے ہدف کو نظرانداز کرنے سے۔ اس طرح بڑی سے بڑی اور مضبوط جماعت بھی کمزور ہو کر ٹکڑیوں میں منتشر ہوسکتی ہے اور اگر مقصد اعلیٰ ہو تو ادنیٰ اختلافات کو دانشمندی سے نپٹنانا کتنا ضروری ہے۔ مجھے اس بات سے بھی شناسائی ہوئی کہ بیرونی ممالک کے نظام کو اپنانے کی خواہش میں اپنے زمینی حقائق کو نظرانداز کرنا ایک فاش غلطی ہے اور پھر یہ کہ اپنے مظلوم طبقے سے کلی طور پر جڑے بغیر انکے مسائل کا حل تلاش کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے بنجر زمین میں بیج بو کر اسکی نمو کا انتظار کرنا۔ تاہم ان سطروں کو رقم کرتے ہوئے مجھے فخر ہے کہ باوجود کمزوریوں کے این ایس ایف کی جدوجہد نے تاریخ کا ایک انمٹ باب رقم کیا جو جمہوری قدروں پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے خوابوں کو زندہ رکھے گا۔
یقیناً اس اہم کتاب کو مرتب کرنے پر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار مبارکبادکے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).