مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی: ایک صدی کا انسان


مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے انتالیس برس ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اچھرہ لاہور کے جس مکان کو اپنا مسکن بنایا تھا اسی کا ایک گوشہ ان کی آخری آرام گاہ قرار پایا۔ یہیں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں۔ چند برس بعد ان کی اہلیہ نے بھی اسی مکان میں آخری ہچکی لی اور ان ہی کے برابر آسودہ خاک ہو گئیں۔ ان دونوں کی کچی قبریں اب اس گھر کی رونق ہیں۔ ان کے عقیدت مندوںکے ”زہد خشک‘‘ نے وہاں کوئی گھاس اگنے دی ہے نہ کبھی پھولوں کو اجازت دی ہے کہ مٹی کو بوسہ دے سکیں۔ اس سال پہلی بار یہ ہوا کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے (برسی کے موقع پر) ان کے مرقد کے سرہانے اجتماع کا اعلان کر دیا۔ نوجوان راجہ عمیر مسلسل اس کی یاد دہانی کراتے رہے۔ نمازِ عشاء کے بعد سینکڑوں پُر جوش نوجوان جمع ہوئے اور سید صاحب کے ذکر سے فضا مہک اُٹھی کہ لفظوں کے پھول ممنوع نہیں قرار پا سکے تھے۔ برادران حفیظ اللہ نیازی، سجاد میر اور عبدالغفار عزیز کے علاوہ مجھے بھی اظہار خیال کا موقع ملا اور گزرے ہوئے ماہ و سال آنکھوں کے سامنے تیرنے لگے۔ مولانا کے دو صاحبزادے حسین اور خالد بھی موجود تھے، لیکن انہوں نے زبانِ خاموشی ہی سے اظہار عقیدت کیا۔ حسین امریکہ میں مقیم ہیں اور سال، دو سال میں پاکستان آتے ہیں۔ اپنے جلیل القدر والد کی سوانح حیات لکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان کی ”دھمکی‘‘ ہے کہ بہت جلد اسے منظر عام پر لے آئیں گے۔ خالد فاروق تفہیم القرآن (اور مولانا کی دوسری تصنیفات) کے پبلشر ہیں، اور کام سے کام رکھتے ہیں۔ تولے بغیر بولنے کے قائل نہیں، اس لئے زیادہ تر وقت تولنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ حیدر فاروق اسی گھر کے ایک حصے میں اب تک رہائش پذیر ہیں۔ وہ اپنی انفرادیت کو متاثر نہیں ہونے دیتے۔ خالد فاروق کی احتیاط ان کے ہاں پہنچ کر بے لباس ہو جاتی ہے…

مقررین نے مولانا مرحوم اور ان کی برپا کردہ اسلامی نظامِ حیات کی تحریک پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ دونوں کو مشورے بھی دیئے کہ دونوں ایک ہی مخمصے سے دوچار ہیں۔ آگے بڑھنے کا راستہ کیسے کشادہ کیا جائے؟ اس منزل تک کیسے پہنچا جائے جس کا خواب مولانا مودودی نے دیکھا اور دکھایا تھا۔ حفیظ اللہ نیازی کہ طلبا یونین کے ذریعے قائد اعظم یونیورسٹی پر حکومت کر چکے ہیں‘ اس وقت کو یاد کر رہے تھے، جب جمعیت یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونینوں کے انتخابات مسلسل جیت رہی تھی، کہیں اس کے امیدوار ہارتے بھی تو دوسرے نمبر پر رہتے۔ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی صرف چار نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، لیکن جمعیت نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں جھنڈے گاڑ دیئے، اور بھٹو مرحوم کے اقتدار پر کپکپی طاری کر دی۔ جاوید ہاشمی، فرید پراچہ، عبدالشکور، لیاقت بلوچ اسی دور کی یاد گار (یا پیداوار) ہیں۔ اقتدار نے اس تنظیم کے ساتھ بھی وہی کیا جو ملکی سطح پر آپے سے باہر ہو جانے والی جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس کا ووٹ بینک سکڑتا چلا گیا ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں جس تناسب سے اس نے ووٹ حاصل کئے تھے، اسے برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو پایا۔ اس سب صورت حال کے خارجی اسباب بہت ہیں لیکن داخلی بھی کم نہیں ہیں۔ زندہ جماعتیں انہی کا کھوج لگاتی اور علاج کرتی ہیں۔ بصورت دیگر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ پاکستانی سیاست میں مسلم لیگ بنتی اور بگڑتی، پھیلتی اور سمٹتی رہتی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت نئی کروٹ لے سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ جان لیں کہ اپنے حال پر مطمئن ہو جانے والے مستقبل محفوظ نہیں کر سکتے۔

سید مودودی کی مرقد کے پاس کھڑے ہوئے تو سید صاحب یاد آتے چلے گئے۔ عشروں پہلے ایک طالب علم کے طور پر میں پہلی بار ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اپنے مرقد سے ذرا فاصلے پر نماز عصر کے بعد ان کی روزانہ نشست ہوتی تھی۔ جس میں حاضری کے لئے کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے مداح دنیا کے کسی بھی کونے سے لاہور آتے تو ان کی زیارت سے آنکھیں منور کر لیتے۔ میں جب حاضر ہوا، تو بیس پچیس افراد ان کے گرد موجود ہوں گے۔ کئی برس بعد لاہور آ بسا تو بار بار حاضر ہونے کا موقع ملا۔ کسی بھی موضوع پر ان سے سوال کیا جا سکتا تھا، وہ مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتے تھے۔ ان کے ہاں الجھائو تھا نہ ابہام۔ کسی ناقد کا نام بھی پورے احترام سے لیتے۔ تو تڑاخ کو یہاں داخلے کی اجازت نہیں تھی‘ آپ جناب کا چلن تھا۔

مولانا مودودی کو اردو زبان کا سب سے بڑا ادیب سمجھا جاتا ہے یا یہ کہہ لیجئے کہ سب سے بڑے ادیبوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ غالب کے خطوط کے بعد ان کی سی نثر نگاری شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو۔ مشکل سے مشکل مضمون اس طرح بیان کرتے کہ کم علم اشخاص کے بھی ذہن نشین ہو جاتا۔ ان کی تفسیر ”تفہیم القرآن‘‘ کا ترجمہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ہو چکا۔ وہ محدث بھی تھے اور مورخ بھی، عملی سیاسیات میں بھی حصہ لیا اور اپنا نقش جمایا۔ وہ جمہوریت کو پاکستان کے لئے آکسیجن قرار دیتے تھے کہ اس کے بغیر اس کا وجود ممکن نہیں ہو گا۔ زیر زمین سرگرمی ان کے نزدیک حرام تھی، کھلی سیاست کی، اور اسی پر زور دیتے رہے۔ وہ کسی بھی مقصد کے لئے مسلح جدوجہد کے قائل نہیں تھے، یہاں تک کہ ریاست کو بھی کسی دوسری ریاست کے خلاف خفیہ جنگ کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اعلان کے بغیر جنگ کا اختیار ریاست کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہ دلیل کی تلوار سے مخالف کا سامنا کرتے اور اسے گھائل کر دیتے۔ وہ مسٹر تھے نہ مُلا… جدید اور قدیم، دونوں نظام ہائے تعلیم کی کمزوریوں پر ان کی نظر تھی، وہ دونوں کی خوبیوں کو یک جا کرنے پر زور دیتے رہے۔ انہیں وہ نوجوان پسند تھے، جن کا دل قدیم ہو اور دماغ جدید…۔

مولانا کی وفات کے کچھ عرصے بعد مجھے ان کا چہرہ ”ملاقات‘‘ کے زیر عنوان لکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، ان کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر اسے پڑھا کہ بہت سے حاضرین کے لئے یہ نیا تھا۔ اس کا آخری بند کچھ یوں تھا:

”صاحب تفہیم القرآن، بولیں تو معانی کا اک جہان…اٹھیں تو اک طوفان چلیں تو صورت ”عبدِ رحمن‘‘…لکھیں تو ”ترجمان القرآن‘‘ کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان… شکوۂ اقبالؒ کے قبول کا فرمان… حاضر و موجود سے بیزاری کا اعلان… اس صدی کا انسان… زندگی اک عرصۂ امتحان… موت حیات جاودان

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے

مجیب الرحمن شامی
Latest posts by مجیب الرحمن شامی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مجیب الرحمن شامی

یہ کالم روز نامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے

mujeeb-ur-rehman-shami has 129 posts and counting.See all posts by mujeeb-ur-rehman-shami