چورس خانے، گول روٹیاں!


‘او لیولز‘ کے نتائج آئے۔ طالب علم کامیاب بھی ہوئے، ناکام بھی۔ اچھے نمبر لینے والے خوش تھے اور کچھ طلبا اچھے نمبر لے کر بھی خوش نہ تھے۔ چہروں پہ پریشانی جھلک رہی تھی، اضطراب کے عالم میں دانتوں سے ناخن کتر رہے تھے اور نظریں ملنے پہ ان کی آنکھوں میں ایک واضح ہراس نظر آرہا تھا۔

خیر سے یہ متمول گھرانوں کے بچے تھے۔ چلیے متمول نہ سہی، ان گھرانوں کے بچے تو تھے ہی، جو آدھا پیٹ کھا کے، باقی سب کمائی پرائیوٹ سکول والوں کو پکڑا آتے ہیں کہ شاید اسی طرح ان کے بچوں کو وہ جادو کا چراغ مل جائے گا جسے اعلیٰ تعلیم کہتے ہیں اور جس کے رگڑتے ہی، آسمان سے ہن برسنے لگے گا اور زندگی گلابوں کی سیج بن جائے گی۔

زندگی کے سنہرے 14 سال، جن میں کمانے کی لگن بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے، پرائیوٹ سکولوں کی تعلیم کے نخرے اٹھاتے گزر جاتے ہیں۔ روز سکول سے ایک لمبا چٹھا، ماہانہ فیس کے علاوہ چلا آتا ہے۔ جس میں کبھی بچوں کو، الو، بلی بنا کے سکول بھیجنے کی ہدایت ہوتی ہے اور کبھی پھل، سبزیاں بننے کی ترغیب۔

نوجوان ماں باپ، خوشی خوشی یہ مشقت اور مفت کے خرچے برداشت کرتے ہیں اور ذرا اتراتے ہوئے، رشتے داروں اور ملنے والوں کو اس نئے طریقۂ تعلیم کے بارے میں بتاتے ہیں جس میں بچوں کو ایک گندے سے سستے کاغذ پہ چھپے قاعدے سے الو، بلی اور کدو، ٹماٹر کی پہچان کرانے کی بجائے، ان نئے طریقوں سے پڑھایا جاتا ہے۔

وقت گزرتا ہے، پڑھائی مشکل ہوتی ہے اور ماں باپ کو اچانک اندازہ ہوتا ہے کہ اگر بچوں کو اے گریڈ دلانا ہے تو، ٹیوشن بھی پڑھانا پڑے گی۔ سکول میں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ پہ ایک سنہری بالوں والی تیز تیز انگریزی بولتی استانی، آپ کا منہ توڑنے کو موجود ہوتی ہے اور بتاتی ہے کہ ٹیوشن پڑھانے کی بالکل ضرورت نہیں۔ بس بچوں کو وقت دیں اور کتابیں پڑھائیں۔ اس بات میں سے اے گریڈ حاصل کرنے کا نسخہ نہیں نکلتا۔

یہ بات اگلے چار سالوں میں بچوں کو چکنے کاغذ پہ چھپے مہنگے ریڈرز پڑھانے کے بعد معلوم ہوتی ہے کہ یہاں بھی وہی ٹیوشن کا دیو کھڑا ہے۔ خود کو طفل تسلی دی جاتی ہے کہ بس چند سال مزید پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ اگلے چند سال میں سامنے آتا ہے کہ وہی رٹا، جسے آپ کی اولاد کے لئیے زہرِ قاتل کہا گیا تھا، اے گریڈ لینے کی کلید ہے۔

اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد

مہنگی اکیڈیمیوں سے ملنے والے نوٹس اور پرانے پرچے حل کر کر کے اگر ‘اے’ گریڈ حاصل کر بھی لیے جائیں تو اگلا بھوت منہ کھولے سب خوشیوں کو ہڑپنے کو تیار کھڑا ہوتا ہے۔ اے لیول میں جانے والے بچے، مقامی میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز میں داخلہ لینے میں بہت کم کامیاب ہوتے ہیں۔

کئی سال، سر مارنے کے بعد، ماں باپ نے ایک طریقہ دریافت کیا ہے یا تو بچوں کو آٹھویں سے ہی میٹرک سسٹم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر وہاں چوک گئے تو اب، ان کو کالج میں ایف ایس سی کرنے بھیج دیا جاتا ہے۔ بچپن سے الو، بلی، اور کدو، ٹماٹر بن بن کے پڑھنے سے ان بچوں میں ایک حس بیدار ہو چکی ہوتی ہے اور وہ دیسی کالجوں کے طریقۂ تعلیم سے جس قدر پریشان ہو سکتے ہیں، ہوتے ہیں۔

کسی طرح اس عذاب کو بھگت کے میڈیکل یا انجینیئرنگ میں پہنچ جاتے ہیں اور اگلے چار پانچ سال سخت محنت کر کے جب ہاتھ میں ڈگری کا کاغذ لیے ماں باپ کے سامنے آتے ہیں تو ماں باپ کی کمر تعلیمی اخراجات کے بوجھ سے کبڑی ہو چکی ہوتی ہے اور بچوں کی آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی راکھ ہوتی ہے۔

یہ ڈاکٹر انجینیئر، اگر لڑکے ہیں تو اس کے بعد کمانے کی مشین بن جاتے ہیں اور اگر لڑکیاں ہیں تو اچھی بہو بن کے گول روٹیاں پکاتی ہیں۔ اس پہ اگر ایک عظیم شخص کی ہم سفری نصیب ہو جائے تو وہی گول روٹی ہسپتال یا دفتر میں کام کر کے آنے کے بعد پکاتی ہیں۔

اس ساری ہماہمی میں جانے کتنے ادیب، شاعر، مصور، ڈرامہ نگار، رقاص، گائیک اور جانے کون کون لوگ مر جاتے ہیں، زندہ رہتے ہیں تو صرف ،گول روٹی پکانے اور کھانے والے لوگ جو ہمارے بنائے ہوئے چورس، خانوں میں پھنسے جیتے رہتے ہیں۔

طلبہ و طالبات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).