شاہ محمود کا پرجوش خطاب، عالمی ضمیرمتحرک ہو گا؟


ترکی کے ’’سلطان اردوان‘‘ کو عمران خان صاحب کے علاوہ اس صدی کا سب سے بڑا رہنما قرار دیا گیا ہے۔ ارادہ تھا کہ آج کے کالم میں ان وجوہات کا ذکر ہوجو میری دانست میں عمران خان صاحب کو ترکی کے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ کر صدر منتخب ہونے والے اردوان سے قطعاًََ مختلف شخصیت کے طورپر پیش کرتی ہیں۔

ہفتے کی رات مگر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ عالمی فورم پر پہلی بار اس منصب پر فائز کسی سیاست دان نے اپنے خطاب کے لئے قومی زبان پر انحصار کیا۔ قومی زبان کے انتخاب کے علاوہ ان کے خطاب کی اہم ترین بات وہ سب کچھ کہہ دینا تھا جس کی توقع میڈیا میں بیٹھے محبانِ وطن کئی برسوں سے اپنی حکومتوں سے باندھ رہے تھے۔

سادہ مگر سخت ترین الفاظ میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ریاستی دہشت گردی پھیلانے کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ مخدوم صاحب کی تقریر نے تحریک انصاف کیCore Constituency ہی کو نہیں بلکہ سیاسی طورپر غیر جانبدار تصور ہوتے کئی پاکستانیوں کے دلوں کو بھی گرمایا ہے۔ ٹویٹر پر ان کی بے ساختہ داد و تحسین ہوتی نظر آرہی ہے۔

ذاتی طورپر انتہائی دیانت داری سے میں بھی داد و تحسین کرنے والوں کی صف میں شامل ہوں۔ بطور صحافی مگر یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں کہ ’’یہ تو ہوگیا۔اب کیا؟‘‘کئی برسوں سے ہمارے ہاں بہت شدت سے یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ’’عالمی ضمیر‘‘ نامی کوئی شے ہوتی ہے۔

ماضی کی نااہل اور بدعنوان قیادتیں اسے جھنجھوڑنے میں ناکام رہیں۔ پاکستان کا دہشت گردی اور کشمیر کے بارے میں کیس اس کے سامنے مؤثر انداز میں پیش نہ کرپائیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے کمال مہارت سے ’’عالمی ضمیر‘‘ کے تناظر میں ہماری بے عملی کے بارے میں ابھرتے ہوئے غم وغصے کا ادراک کیا اور برملا انداز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے ہمارے کئی جید ماہرینِ دفاعی وخارجہ امور اپنے ہی لوگوں کو بتارہے تھے۔

شاہ صاحب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پرجوش تقریر کے بعد بھی لیکن مجھ بدنصیب کو ’’عالمی ضمیر‘‘ متحرک ہوتا نظر نہیں آرہا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کئی برس تک ایک عہد چلا جو کسی ’’عالمی ضمیر‘‘ کی موجودگی کا گمان فراہم کرتا تھا۔

اس کی بدولت سوویت یونین پاش پاش ہوگیا۔ برلن دیوار ڈھے گئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ قومی اورنسلی تعصبات سے آزاد ہوکر بنی نوع انسان ایک ایسے Global Village میں سکڑگئی ہے جہاں کے باسیوں کے دُکھ سکھ سانجھے ہیں۔

اس صدی کے آغاز ہی میں لیکن 9/11 ہوگیا۔ اس کے بعد سے ’’دہشت گردی‘‘ فقط مسلمانوں کے لئے وقف کردی گئی۔ انہیں ’’دہشت گرد‘‘ حاکموں سے نجات دلانے کے نام پر شام جیسے ملکوں میں خانہ جنگی کی پشت پناہی ہوئی۔ اس خانہ جنگی سے جان کی امان پانے کے لئے مہاجرین نے یورپ کا رُخ کیا تو مغربی دنیا کو اپنی ’’تہذیب‘‘ خطرے میں نظر آنا شروع ہوگئی۔

یورپی یونین بذاتہی سب کو اپنے پہلو میں سمیٹتی ’’کل‘‘ نہ رہی۔ Brexit ہوگیا۔ برطانیہ کے بعد اب فرانس اورجرمنی میں بھی ’’قومی تشخص‘‘ پرزور دیا جارہا ہے ۔ہنگری اور پولینڈ میں نسل پرستی کی بڑھتی لہرنے ہٹلر کا زمانہ یاد دلانا شروع کردیا ہے۔

ان حالا ت میں اس صدی کے آغاز تک دنیا بھر میں ’’انسانی اقدار‘‘ کا محافظ بناامریکہ بھی ٹرمپ کا ہوگیا جس نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے American First پر زور دیا اور توجہ صرف ایران کو دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والا ملک ثابت کرنے پر مرکوز رکھی۔

مذکورہ بالاپس منظر میں شاہ محمود قریشی صاحب کا اُردو زبان میں ہوا خطاب ہمیں تسلی اور حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ حالات بہتر ہونے کی مگر کوئی امید نہیں دلاتا۔ مجھے خدشہ ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے ہفتے کے روز ہوئی تقریر کے بعد پاک-بھارت تعلقات مزید کشیدگی کی طرف بڑھیں گے اور ’’عالمی ضمیر‘‘ اس کشیدگی کو بروقت اور ٹھوس انداز میں روکنے کے لئے متحرک نہیں ہوگا۔

یورپ کے کئی ممالک کی طرح بھارت میں بھی اس وقت ابن خلدون کی بیان کردہ ’’عصبیت‘‘ اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ نریندر مودی دھرم کا پرچارک ہوا کرتا تھا۔ بعدازاں گجرات کاوزیر اعلیٰ بن گیا۔ پرچارک نے سیاسی ہوکر اقتصادی ترقی کو اپنا اصل ہدف ٹھہرانے کی کہانی گھڑی۔ اس کہانی کی بدولت بالآخر بھارت کابھاری اکثریت کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہوگیا۔

گجرات میں اپنے ایام اقتدار کے دوران اس نے معاشی میدان میں جو رونق لگائی تھی وزیر اعظم بن جانے کے بعد وہ اسے لیکن پورے بھارت میں پھیلانہ سکا۔ بھارتی معیشت اور سیاست اس وقت جمود کی گھٹن میں محسوس ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس گھٹن سے فرار کے راستے نریندر مودی ایک بار پھر انتہا پسند ہندوتوا کے بھرپور احیاء کے ذریعے ڈھونڈ رہا ہے۔

تقریباًََ 9 مہینوں بعد بھارت میں نئے انتخابات ہونا ہے۔ مودی کو بھاری بھر کم اکثریت کے ساتھ لوک سبھا میں لوٹنے کا اعتماد میسر نہیں۔ وہ جنتا میں پھیلی مایوسی کو قوم پرستانہ رعونت کے جذبات ابھارتے ہوئے ختم کرنا چاہ رہا ہے۔ ایسے حالات میں پاک-بھارت تعلقات میں معقولیت والا معمول دکھانے کی گنجائش بھی موجود نہیں رہی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کافی ذہانت سے اس خلاء کو اپنے لوگوں کے دل گرمانے کے لئے استعمال کیا ہے۔

ٹھنڈے دل سے مگر سوچیں تو موصوف کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی موجود نہیں تھا۔ ان کے نیویارک روانہ ہونے سے قبل وزیر اعظم پاکستان نے بھارتی ہم منصب کو ایک خط لکھا۔ اس خط کے ذریعے بھارت کو پیش کش ہوئی کہ وہ نیویارک میں پاک، بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو دیرینہ مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کے ذریعے بہتر کرنے کے عمل کا احیاء کریں۔

نئی دہلی نے کمال رعونت سے اس ملاقات پر آمادگی کے اظہار کے عین ایک دن بعد اس سے انکار کردیا۔ بات فقط انکار تک محدود نہیں رہی۔ میڈیا Management کے جدید ترین حربوں کو استعمال کرتے ہوئے بھارت بھر میں اس نام نہاد Surgical Strikeکی سینہ پھلاکر داستانیں بنائی گئیں جو بھارت نے آج سے دو سال قبل اپنے تئیں ’’پاکستانی سرحد میں گھس کر‘‘ کی تھیں۔

بھارت کی جانب سے Surgical Strikeکے دعوے کو روزِاوّل سے میں فقط صحافیانہ سوالات اٹھاکر جھٹلانے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ایسا کرتے ہوئے میں نے ریاستِ پاکستان کی خودساختہ ترجمانی سے گریز کیا۔ میرے اٹھائے سوالات کو اس کے باوجود ’’پاکستانی تعصب‘‘ کا مظہر ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

Surgical Strikeکے دعوے کے بارے میں بھارت ہی سے اُٹھی چند معقول آوازوں کا بھی لیکن مودی سرکار نے کوئی خاطر خواہ جواب فراہم نہیں کیا ہے۔ بنیادی سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ Surgical Strikeکے بعد پاکستان کو ’’بندے کا پتر‘‘ ہوا نظر آنا چاہیے تھا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں دن بدن اضافہ ہوا۔

مشرف کے دور میں اس لائن پر فائربندی کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے خلا ف بلکہ گزشتہ برس ریکارڈ خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملیں۔ بھارتی آرمی چیف مگر پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے ’’جلد ہی‘‘ مزید Surgical Strikesکی بڑھکیں لگارہا ہے۔

بھارت کے کئی بااثر صحافی تواتر کے ساتھ اس امر پر تاسف کا اظہار کررہے ہیں کہ شاید اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی اعتبار سے ’’غیر جانبدار‘‘ تصور ہوتی فوج کا سربراہ مودی کی جماعت کو آئندہ انتخابات میں بھاری اکثریت دلانے کے لئے مزید Surgical Strikesکی بڑھکیں لگارہا ہے۔

آرمی چیف کے رویے پر بھارت میں مسلسل اٹھائے سوالات کی وجہ سے بھارتی فوج کسی ایڈونچر کی جانب راغب ہوسکتی ہے۔ نام نہاد ’’عالمی ضمیر‘‘ مگر اس پہلو کی جانب توجہ ہی نہیں دے رہا۔ پاکستان اور بھارت کومیری دانست میں ’’ان کے حال پر‘‘ چھوڑ دیا گیا ہے۔

’’عالمی ضمیر‘‘ کی ایسی بے اعتنائی دو ایٹمی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ماضی میں بہت کم دیکھنے کو ملی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ شاہ صاحب کی ہفتے والی تقریر نے بھی اس ضمن میں ہماری ٹھوس مدد نہیں کی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).