مذہبی اقدار اور مَسلکی اختلاف کا حُسن و قُبح


عاشورہ محرم بخیر و خوبی رخصت ہوا۔ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ بین الاَقوامی طور پر یہ عاشورہ پرامن رہا۔ پاکستان بھر میں سخت سیکورٹی اِنتظامات اور عوامی بھائی چارگی کے سبب مٹھی بھر دہشت گردوں کو موقع نہیں ملا کہ وہ اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکیں۔ گلگت بلتستان میں عوام نے جارِحانہ عزائم کو قبول نہ کرنے کی تاریخی و جغرافیائی رِیت ڈالی۔ بلتستان میں ویسے بھی مسلکی ہم آہنگی گذشتہ کئی عشروں سے برقرار ہے۔

اسلامی شعائر اور رسومات کے اِظہار کے دوران عوام میں باہمی اِتفاق و اِتحاد کی فضاء قائم ہوتی ہے اور لوگ غصہ، چڑچڑا پن، عدمِ برداشت جیسے رویوں سے بے زاری کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس دفعہ بھی عاشورہ محرم کے دوران مثالی ہم آہنگی نظر آئی۔ گلگت جہاں مسلکی اِختلافات کے اثرات کچھ زیادہ گہرے ہیں اور بعض اوقات ان اختلافات میں شدت آجاتی ہے۔ نتیجتاً لوگوں میں عدمِ اتفاقِ، عدمِ برداشت اور ایک دوسرے سے دوری کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ البتہ اِس طرح کے منفی رویوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ گذشتہ چار عشروں سے لوگوں میں تناؤ کا ماحول پیدا ہوا ہے تو اس کے پسِ پشت ایک تاریخی حادثہ کار فرما ہے اور وہ حادثہ ”سانحہ88ء“ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

اِس سانحہ نے گلگت کی فضاء مکدر کردی۔ جو ماحول اپنے اندر امان و امان اور بھائی چارگی لئے تھا وہ ایک دم سے مسلکی اختلاف کے نذر ہوگیا۔ 80ء کی دہائی سے قبل کے گلگت کی طرف نظر کریں تو ایک پرامن ماحول، علحیدہ مسلکی شناخت کے باوجود رشتے ناتوں کی زنجیر، ایک دوسرے کے دکھ درد کا پاس، مذہبی رسومات کی ادائیگی میں امتیازی لحاظ جیسے مثالی نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد تعلیم سے نابلد ہونے کے باوجود امن کی حیثیت اور اہمیت کو جانتی تھی۔ مشہور ہے کہ 88ء سے قبل عاشورہ محرم کے جلوس میں اسماعیلی اور اہلسنت برادری کے لوگ شیعوں کے شانہ بشانہ شرکت کرتے تھے۔

جلوسِ عزاء کے دوران سیکورٹی کے فرائض اور سبیل وغیرہ کی ذمہ داری دونوں مسالک کے لوگ نبھاتے تھے۔ اس عاشورہ پر وہی مثالی دور پھر سے لوٹ آیا۔ تمام مسالک کے لوگوں نے عاشورہ محرم کو پرامن بنانے کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ اسماعیلی بوائے اسکاؤٹس کے اراکین نے نویں اور دسویں محرم کو جلوسِ عزاء کے روٹس کی صفائی کی جبکہ ہنزہ سے لے کر دنیور تک جگہ جگہ سبیلیں بھی لگائی گئیں۔ اسی طرح اہلسنت کی عمائدین کی جانب سے مجالسِ عزاء میں شرکت کرنے کا خوبصورت مظاہرہ کیا گیا۔ چھموگڑھ میں نوجوانوں کے ایک گروہ کی جانب سے سبیلِ حسینؑ اور لنگر کا اہتمام کیا گیا اور گروہ میں شامل تمام نوجوان سیاہ لباس میں ملبوس تھے جس سے باہمی یکجہتی کا ایک اور عملی مظاہرہ ہوا۔ بہرحال یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا جو یقیناً سو فیصد کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

گلگت بلتستان کے لوگوں کےلئے یہ عاشورہ بہت بڑا درس دے گیا۔ اگر وہ چاہیں تو اس طرح کے شعائر کے دوران مکمل اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور اپنے خطے کو کسی بھی فرقہ وارانہ آگ میں جھونکنے سے گریز کرسکتے ہیں۔ اس مثالی یکجہتی سے یہ پیغام بھی ملا کہ فرزندِ رسولﷺ، سیدالشہداء امام حسینؑ سب کے ہیں اور سب کے نزدیک واجب الاحترام ہیں۔ آپؑ کی قربانی اسلام اور انسانیت کے لئے تھی اور بحیثیتِ انسان سبھی اس بات کے معترف ہیں کہ حسینؑ نے اپنی ذات کےلئے قربانی نہیں دی اور نہ ہی آپؑ کو اقتدار کا لالچ تھا۔ آپؑ کی مقاومت وقت کے ظالم بادشاہ کے خلاف تھی جو دراصل مظلوموں کےلئے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ گویا لوگوں نے تسلیم کیا کہ حسینؑ حق و باطل کے درمیان فرق، مظلوم اور ظالم کے درمیان لکیر، سچ اور جھوٹ کا استعارہ ہیں۔

دیکھا جائے تو تمام مسالک کے درمیان بنیاد خدا، رسولﷺ اور قرآنِ مجید ہیں۔ بجائے اس کے کہ مسلکی عقائد کو فوقیت دی جائے کیوں نہ مشترکات پہ بات کی جائے۔ اور اختلافات کو ہوا دینے سے بہتر ہے کہ ایک اجتماعی موضوع جس پر تمام اہلِ اسلام ایمان رکھتے ہیں کو باہم مشترک کا تَتِمّہ قرار دیا جائے تاکہ مسلکی اختلاف کو کم سے کم ہوا لگے اور لوگ باہمی بھائی چارگی کے عادی ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).